گزشتہ روز تعلقہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک واقعہ پیش آیا، جس میں پرائمری اسکول کے ٹیچر کو قتل کر دیا گیا اور قاتل فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے۔ اس کا سُراغ لگانا پولیس کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں تھا۔ اس لیے کہ جائے وقوعہ پر کوئی بھی شہادت دینے والا موجود نہ تھا اور نہ ہی قاتل نے کسی قسم کا کوئی ثبوت وہاں چھوڑا تھا، جب کہ دوسری جانب ایک مختلف قسم کی قیاس آرائی سوشل میڈیا پر جاری تھی، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ٹارگٹ کلنگ ہے، تو کچھ کا خیال تھا کہ یہ پُرانی دشمنی کا نتیجہ ہے، بہرحال معاملہ کچھ ایسا آسان نہ تھا، لیکن اس سلسلے میں پولیس کے افسران سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے اس کی حکمت عملی یہ بنائی کہ تفتیش مقتول کے گھر سے شروع کی گئی اور پھر کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی۔
اس بارے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ تعلقہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں پرائمری اسکول ٹیچر کے قتل کے معاملے پر پولیس کی جانب سے تفتیش شروع کی گئی اور اس قتل کا سراغ لگانے کے لیے پولیس کی مشترکہ ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے دن رات تفتیش کے بعد مقتول کی بیوی سمیت تین ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ اس سلسلے میں مقتول ٹیچر گلزار علی کھو کھر کے بھتیجے پولیس کانسٹیبل باقرعلی کھوکھر اور زین العابدین کے بارے میں ایس ایس پی نے بتایا کہ ٹیچر گلزار علی کھوکھر کی دوسری بیوی فائزہ بیروہی کے پولیس کانسٹیبل باقرعلی کوکھر سے تعلقات ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ باقر کھوکھر اپنے چچا گلزار کھوکھر سے چھپ کر ان کی بیوی فائزہ سے ملتا تھا، اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود کا کہنا تھا کہ باقر کھوکھر نے اپنے اقبالی بیان میں بتایا کہ میرے چچا گلزار کھوکھر کو میرے ان کی بیوی فائز کے ساتھ تعلقات کا علم ہو گیا تھا اور پھر میں نے ان کو اپنے راستے سے ہٹانے اور فائزہ کواپنانے کے لیے یہ خونی کھیل کھیلا اور اپنے سگے چچا گلزار کھوکھر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ قاتل باقر کھوکھر نے پولیس کمانڈو کی ٹریننگ حاصل کی تھی اور اس نے موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کی صلاحیت حاصل کی ہوئی تھی اور اسی کو استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنے چچا پر فائر کیا۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ ملزم نے مقتول پر چھ گولیاں چلائیں، جن میں ایک گولی ان کے سر میں پیوست ہوئیں، جب کہ دو گولیاں چہرے پر لگی اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ پولیس نے اس واردات کے بعد سب سے پہلے مقتول کی بیوی سے تفتیش کی ابتدا کی، تو سارے راز کھلتے چلے گئے اور اس طرح یہ ایک اندھا قتل باقاعدہ طور پر ثبوتوں کے ساتھ پولیس نے پکڑ لیا اور امید ہے کہ قاتل اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔
سوشل میڈیا پر اس قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا گیا، جب کہ کچھ لوگوں نے اس کو ڈکیتی کی واردات سے منسلک کیا ،جب کہ اب اصل صورت حال سامنے آئی ہے ، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ سوشل میڈیا ورکر جو کہ ہر غلط خبر کو سنسنی خیز بنا کر پیش کر کے عوام کے سامنے پولیس کا چہرہ مسخ کرتے ہیں، لیکن اب جب صحیح صورت حال سامنے آئی ہے تو انہوں نے چپ سادھ لی ہے۔ دسمبر میں اچانک جرائم کی ایک لہر نے ضلع شہید بینظیر آباد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف مقامات پر مسلح موٹرسائیکل سواروں نے لوٹ مار کی موٹر سائیکل جینی اس کے علاوہ موبائل فون اور نقدی کی بھی وارداتیں ہوئیں۔ اس سلسلے میں پولیس نے اپنا روایتی کردار ادا کرتے ہوئے ملزمان کا پیچھا کیا اور اس کے بعد لاکھوں روپیہ جو کہ نقدی کی صورت میں شہر کے کاروباری علاقوں سے لوٹا گیا تھا، ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے یہ رقم برآمد کر کے تاجر تنظیموں کی موجودگی میں مالکان کے حوالے کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ موہنی بازار میں ایک دکان سے دس لاکھ روپے کی ڈکیتی ہوئی ،جب کہ سکرنڈ روڈ پر بینک سے 15 لاکھ روپے لے کر گاؤں جانے والے افراد کو موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے لوٹ لیا۔اس کے علاوہ پرانا نواب شاہ سے ایک ہول سیل دکان سے ساڑھے تین لاکھ اور اس کے علاوہ بھی وارداتیں ہوئیں، جن میں موبائل فون نقدی لوٹ لی گئی۔
ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ تواتر سے ہونے وارداتوں کے بعد پولیس کی ازسرنو صف بندی کی گئی، تھانوں کے ایس ایچ او کو تبدیل کیا گیا، جب کہ کئی نئے ایس ایچ او کو چارج دیا گیا اور اس طرح اس حکمت عملی کے نتیجے میں صورت حال میں بہتری آئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وارداتوں کے بڑھنے کے باعث شہر میں پولیس 15 کو فعال کر دیا گیا ہے اور 80 تربیت یافتہ کمانڈوز پر مشتمل دستہ شہر میں متعین کیا گیا ہے اور کسی بھی واردات کی صورت میں یہ اسی جوان دو منٹ کے وقفے سے جائے واردات پر پہنچ کر ملزمان کو فرار ہونے کا موقع دیئے بغیر ان کی کلائی مروڑ دیں گے۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ پولیس نے دو درجن سے زائد چھینی گئی موٹر سائیکلوں کو برآمد کر کے مالکان کے حوالے کیا۔ اس کے علاوہ منشیات اور گٹکا ببڑی تعداد میں پکڑ کر اس کو تلف کیا گیا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلع شہید بینظیر آباد جو کہ امن و آشتی کا گہوارہ ہے اور سندھ کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں یہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے، لیکن اس کے باوجود پولیس کا یہ فرض ہے کہ وہ جاگتی رہے اور عوام کو میٹھی نیند سونے کا موقع فراہم کرے ۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت شہر میں دو سو کیمرے لگائے گئے ہیں، جب کہ اس پروجیکٹ میں 1000 کیمروں کی گنجائش ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاجروں اور اہل ثروت افراد سے ہماری اپیل ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت کیمرے لگائیں اور اس طرح کم خرچ سے لگائے کیمروں کا ثمر انہیں حاصل ہوگا اور مجرم کا چہرہ اور اس کے علاوہ اس کی پوری مومنٹ ریکارڈ پر ہوگی اور اس تک پہنچنا آسان اور ممکن ہو سکے گا۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کو یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ پھر کسی کو جرات نہیں ہو گی کہ وہ ان کیمروں کی موجودگی میں کوئی ڈکیتی کی واردات کوئی قتل و غارت گری موٹرسائیکل چھیننے اور لوگوں کو لوٹنے کی کوشش کر سکے۔ اس لیے کہ اسے یہ پتہ ہوگا کہ کیمرے کی آنکھ اسے دیکھ رہی ہے۔