تہمینہ مختار
کمرے سے آتی ہوئی بہت دھیمی آوازیں آہستہ آہستہ تیز و تلخ ارتعاش میں تبدیل ہوتی جا رہی تھیں۔ شاید کمرے میں موجو دو نفوس یہ سمجھتے تھے کہ صرف اس کمرے کے در و دیوار ہی ان کے زہریلے جملے سن رہے ہیں۔ اس لئے بے خبری کا یہ عالم تھا کہ کمرے کی کھڑکیوں کو بند کرنے کابھی تکلّف نہیں کیا گیا تھا۔ اس باشعور لڑکی کو یہ گوارا نہیں تھا اوراسے یہ زیب بھی نہیں دیتا تھا کہ وہ اس تلخ تکرار کو سنتی، لیکن دو جملوں میں اس کے نام نے نہ چاہتے ہوئے اس کے قدم روک لیے تھے۔’’عذیر، ایک فیصلہ کرو! اس گھر میں وہ یا میں۔ اس گھر میں اگر وہ رہے گی تو میں بچّوں کے ساتھ نئے گھر میں اگلے ماہ شفٹ ہو جاؤں گی۔ لیکن یاد رکھنا، وہ ہمارے ساتھ نہیں جائے گی‘‘۔
اس کے بعد بھائی نے اس کے لیے کیا کہا،اس کے حق میں کس طرح سے راہ ہموار کی؟ اس نے آگے سننا گوارا نہیں کیا۔ کمرے میں آ کر خوب جی بھر کر روئی اور رات کے آخری پہر اللہ تعالی سے شکوہ کئے بغیر نہ رہ سکی۔کیا میرے لئے کوئی ایسا آنگن نہیں تھا، کوئی ایسا سائبان نہیں تھا جہاں میں اپنے آپ کو دنیا کی کڑی دھوپ سے بچا پاتی؟
یہ تھی سلطانہ جس کا درد میں نے جتنا محسوس کیا اتنا بیان کر دیا۔ اس معاشرے میں ایسی کتنی ہی سطانہ ہوں گی، جن کی یہی کہانی ہو گی جو میں نے اور آپ نے کہیں نہ کہیں لفظوں کے ردوبدل کے ساتھ سنی اور پڑھی ہوں گی۔
عورت ہمیشہ عورت کے لیے ہی المیہ رہی ہے۔ عورت جو وفا کا پیکر ہے، جس کے پیروں میں جنّت ہے، جو باپ اور بھائی کے لیے عزت و ناموس کی نشانی ہے،نہ جانے کیوں عورت دوسری عورت کے لیے سنگ دل بن گئی۔ ازل سے عورت نے ہی عورت کا استحصال کیا ہے۔ اپنے استحصالی رویّوں سے اس کے جذبات اور انا کو برے طریقے سے کچلا ہے۔ اللہ نے اسی عورت کو ماں، بہن، بیٹی ، بیوی اور لفظوں کے بندھن سے بندھنے والے رشتے نند، بھابھی، دیورانی، جٹھانی اور ساس جیسے رشتے عنایت کئے، لیکن اس نے صرف ان رشتوں کی حرمت اور اپنائیت کو سمجھا اور دل سے قبول کیا جو ایک دوسرے کی رگوں میں اپنا خون بن کر دوڑتے ہیں۔
بہن سے وہ فاصلے اور خلیج رشتوں میں دراڑیں ڈالتی ہیں جہاں پر ڈالی تو ایک گھر کی بنیاد گئی تھی لیکن ایک گھر سے کئی گھر بنتے چلے گئے۔ ہم جیسی نہ جانے کتنی بے حس عورتوں نے صرف ایک رشتے کی چاہ میں دوسروں کو تنہا کردیا۔ کسی بھی سماج کی تعمیر اور تہذیب نفس میں عورت کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اس کو اسی بنیادی کردار کی وجہ سے سماج اور انسانی ارتقائی عمل میں ستون کی سی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اتنی اہمیت کی حامل ہونے کے باوجودوہ خود اپنے لئے اپنے ہی رویّوں میں تلخ بھی رہی ہے،جس کے سبب کئی مشکلات کا سامنا بھی کیا ۔لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ کبھی ان معاملات یا عوامل پر غور نہیں کیا گیا جن کے سبب عورت ظلم کا شکار ہو رہی ہے۔
کبھی اس نکتے کی گہرائی کو نہیں سمجھا گیا جہاں عورت نے ہی دوسری عورت کا اس لئے استحصال کیا کہ وہ خود وراثت سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک اس کو اس کا حق نہیں دینا چاہتی۔ زمین، جائیدادکے جب حصّے، بٹوارے ہوتے ہیں تو کوئی ماں یہ نہیں کہتی کہ اس میں میری بیٹیوں کا جائز شرعی حصّہ کتنا ہے۔ کوئی بہن شاید ہی ایسی ہو جو اپنے اور اپنی بہنوں کے حق کے لیے آواز اٹھائے۔ یعنی اس غیرمرئی تشدد میں وہ مرد ہی کا ساتھ دیتی ہے اور خود جرأت کرتی ہے اور نہ دوسری عورت کو کرتے ہوئے پسند کرتی ہے۔ اور اگر کوئی جرأت اور ہمت کر بھی لے تو یہ کہا جاتا ہے ’’ہائے کیسی بہن ہے، بھائیوں سے حصّہ وصول کر رہی ہے۔ یا کیسی بہو ہے، جو جائیداد کے لیے بھائی کو بھائی سے لڑا رہی ہے۔
سیاست کا کوئی ایک ورق بھی اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں بھی عورت نے ہی عورت کے لیے محاذِ جنگ کھول رکھا ہے۔ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں میں آپ کو ایک دوسرے کی حریف خواتین ہی نظر آئیں گی اور یہ بھی کہ بعض اوقات انہوں نےایک دوسرے پر الزامات کی ایسی بوچھاڑ کی کہ کیا مرد کریں گے۔ گو کہ جدید تعلیم اور مغربی تہذیب کے اثرات نے عورت کا نفسیاتی شعور اجاگر تو کیا ہے، لیکن شاید مثبت تبدیلی اب بھی نظر نہیں آتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اس کے اردگرد کا ماحول ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اس کے اپنے بدلنے سے صرف اس کے نظریات اور تصوّر زندگی ہی بدلا ہے، لیکن وہ مشرقی روایات اور احساسات نہیں بدلے ہیں ،جو واقعی کسی حیرت انگیز تبدیلی کا مظہر ہو سکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ عورت خاندان میں Kingpin کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر وہ اپنی جگہ سے اکھڑ جائے تو خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی اور اسلامی حقوق اس سماج میں جتنے اسے حاصل ہیں اور جتنا تحفظ اسے دیا گیا ہے دوسرے معاشروں میں ایسے حقوق اور تحفظ کے معیارات اسے ملتے نظر نہیں آتے۔ یورپ میں تو جو برابری کا درجہ اس نے لیا اس سے اگر اسے فائدہ ہوا تو کئی گنا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
یہ تو عورت کا ایک عمومی رویّہ ہے ،جو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن کھلے دل سے شاید عورت ہو کر عورت کے اس رویّے پرکبھی اعتراض نہیں کیا، نکتہ چینی نہیں کی۔ البتہ اگر مرد نے ہاتھ اٹھایا ہے، کوئی اعتراض کیا ہے یا پابندی عائد کی ہے تو اس کے لیے ضرور قراردادیں پاس ہوئیں ، قوانین بنے ہیں اور بل پاس ہوئے ہیں۔ شاید ان باتوں پر کوئی تنقید بھی ہو یا یہ بات ذہن میں آئے کہ ایک عورت ہو کر عورت کے دکھ کو محسوس نہیں کیا۔
البتہ افسوس اس امر کاکہ عورت نے مرد کے زنداں سے رہائی پا کر خود اپنے گھر میں اور اس معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے نہ جانے کتنے زنداں بنا دیئے۔ گھر جو کبھی ایک دوسرے کے لیے سکون و راحت کا باعث ہوتےتھے، ان گھروں میں اب یہ لفظ کونے میں رکھی ہوئی ایک تصویر بنتے جا رہے ہیں۔جہاں اپنائیت اور عنایت کی فضا تھی وہاں اب خود غرضی اور بے حسی نے جگہ بنالی ہے۔ خاندان جو کبھی ایک ادارہ تھا اور جس میں ہر فرد، خصوصاً خواتین، کا کردار ایک مثالی درجہ رکھتا تھا اسی ادارے میں خواتین نے اپنے پیر پر کلہاڑا مار کر اپنی اپنی ذات کے کارنر بنا لیے ہیں۔ ایسا کارنر جہاں ہر فریم میں خود اس کی تصویر سجی ہوئی ہے۔
اب مشرقی خاندانوں میں آپ کو ایسی عورت نظر آئے گی جو ہر طرح سے خاندان کی سربراہ بھی ہے اور اس کا کل اثاثہ بھی۔ یہ ایک ایسا مشرقی نظام ہے، جس کا ہر عمل، ہر فیصلہ اس کے اور اس کے خاندان کے مضبوط ہونے کی علامت ہے۔ لیکن مغرب کی تہذیب نے مشرق کے حقیقی اجزاء کو ہی منتشر کردیا۔ رواداری باقی رہی ،نہ کنبہ پروری ،صرف ایک احساس نے جنم لیا،ایسا احساس جہاں وہ صرف اپنے تصورات ،اپنے جذبات اور خیالات کے ساتھ جینا چاہتی ہے یا اس میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو اس کے قریبی رشتے ہیں، یعنی اولاد، ماں باپ اور بہن بھائی کی صورت میں۔
اس نے ایک طرف تو ایسا میدان جنگ منتخب کیا جہاں اس پر مرد کی طرف سے جائیداد سے لے کر علیحدگی کی صورت تک، اولاد کی حوالگی کا معاملہ پیش آیا تو سینہ سپر ہوکر اس کا مقابلہ کیا، لیکن جہاں کسی معاملے میں کوئی عورت ا س کے مد مقابل آئی اس نے اُس کا سرہی کچل دیا۔ ساس نے جہیز کے نام پر بہو کو آگ میں جھونکا۔ بھابھی نے عمر رسیدہ کنواری نند پر گھر کے دروازے بند کردئیے۔ یہاں تک کہ بعض بہوئوں نے شوہر کے آنکھ پر ایسی پٹی باندھی کہ وہ بیٹے خود اپنے ہاتھو ں سے اس ضعیف ،بیمار ،لاغر یامخبوط الحواس ماں کو، جو شاید زمانے کے نشیب وفراز دیکھ کر اپنے حوا س کھو چکی تھی، ایسے شیلٹر ہوم میں چھوڑ آئے ،جو شاید بنے ہی اُن کے لیے تھے۔
عورت اور مرد کے درمیان ہمیشہ سے معاشی ،سماجی ،سیاسی اور صنفی مساوات کا مقابلہ رہا ہے۔ مخصوص اسباب اور وجوہ کی بنا پر مرد نے عورت کی عقل کے مُہرے کو بہت برے طریقے سے پیٹا بھی ہے۔ لیکن ایک مقام پر جہاں اس کی عقل نے خود بھی مات کھائی، وہ ہے ایک عورت کے ہاتھوں دوسری عورت کے استحصال میں اس کا ایک مُہرے کی طرح استعمال ہونا۔افسوس اس امرپر ہوتا ہے کہ ہم ا س باریک لکیر کو ہی نہیں سمجھ رہے، جہاں بہت سارے اچھے بھلے معاملات بھی ہماری کم فہمی اورعاقبت نااندیشی کی وجہ سے انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تھوڑی وسیع القلب ہوجائیں۔ مرد اکیلا نہیں ہوتا بلکہ ہماری بھی کوئی نہ کوئی سوچ ،آمریت اور خود پرستی اسے کچھ ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے، جو شاید وہ خاندان کو بچانے کے لیے کر رہاہوتا ہے۔ یہاں پر خاندان وہ تصورِ خاندان ہےجو صرف میاں، بیوی اور بچوں تک محدود ہوتا جارہا ہے۔ بہت سی باتیں اور ارادے ناممکن نہیں ہوتے، بس نفس اور اس کی خواہشوں پر بند باندھنا ہوتا ہے۔ جہاں اپنے لیے تھوڑی مشکل ضرور ہوتی ہے لیکن اس مشکل کے لیے ذرا اس پہلو سے بھی سوچیں کہ اس مقام پر میں بھی کھڑی ہوسکتی تھی اور کسی مرد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کسی عورت کا فیصلہ میرے لیے کیا ہوتا۔