• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان فلم انڈسٹری کا خوبصورت وِلن ’’شاہنواز گھمن‘‘

پاکستان کی فلمی تاریخ پر نگاہ ڈالیں، تو ہمیں سندھ کے سرمئی شاموں کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے بے شمار کام یاب اداکار نظر آئیں گے، جن میں فلم اسٹار محمدعلی ، مصطفی ٰ قریشی، نیلی، چکوری، دیگر اور بہت سے نام شامل ہیں، جنہوں نے شوبزنس کی چمکتی دنیا میں اپنی خداداد صلاحيتوں کا لوہا منوایا۔ اگر فلم انڈسٹری میں ”وِلن “ کے کرداروں کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو اسلم پرویز اور مصطفیٰ قریشی کے بعد جو نام ابھر کر سامنے آتا ہے، وہ اداکار شاہنواز گھمن کا ہے، جو آج بھی شائقین فلم کے ذہنوں میں موجود ہیں۔

1970کی دہائی میں تعلیم یافتہ، دراز قد، تیکھے نقوش کے حامل شاہنواز گھمن نے اپنے فلمی کیریئر میں جن 150سے زاہد فلموں میں اپنی شان دار صلاحيتوں کا مظاہرہ کیا، ان میں اردو کی 87،پنجابی کی 63اور پشتو کی 6فلموں میں کام کرتے ہوئےخود کو ایک کام یاب وِلن کے طور منوایا۔ یُوں تو وِلن کا نام ذہن میں آتے ہی ایک بد قماش، منہ زور،وحشی درندے کی شکل سامنے آتی ہے، مگر اس کے برعکس شاہنواز اپنی عام زندگی میں انتہائی سادہ،ملن سار، رحم دِل اور محبت کرنے والے انسان تھے، دُکھی انسان کی خدمت کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ ماضی پر اگر نگاہ ڈالی جائےتو ان کے بے شمار دوستوں کی فہرست نظر آتی ھے، جو آج بھی شاہنواز گھمن کو اسی شریف النفس انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ 

وہ فلم اسٹوڈیوز کے ضرورت مند ملازمين کی مدد میں فراخدلی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ شاہنواز کو زمانہ طالب علمی ہی سے اداکاری کا شوق تھا،جب شوق حد سے زیادہ بڑھ گیا، تو شاہنواز نے کراچی کا رُخ کرتے ہوئے، 1968میں کراچی ٹی وی کے ابتدائی دور کے ڈراموں میں پرفارم کرتے ہوئے شہرت ملنے کے بعد بڑی اسکرین پر شہرت کی خواہش نے لاہور منتقلی کے بعد لاہور ٹی وی کے کھیل ”دھواں“میں قوی اور طاہرہ نقوی جیسے سینئرز فن کاروں کے ساتھ اپنی کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔

لاہور فلم انڈسٹری تک ان کام و نام پہنچ چکا تھا، لہٰذا انہیں فلم ”ایک پیار دو پھتر“ اورسر دا سائیں میں اپنی فنی صلاحيتوں کے جوہر دکھا کر ملک کے نامور ہدایت کاروں کو اپنی جانب راغب کر لیا اور یُوں 1972 میں شباب کیرانوی نے اپنی فلم ”من کی جیت“ میں وِلن کے کردار میں پیش کیا اور یہ فلم ان کی سپرہٹ فلم کا اعزاز حاصل کرنے میں کام یاب رہی،شباب کیرانوی نے شاہنواز کی اداکاری کو سرہاتے ہوئے اپنی فلم”انسان اور فرشتہ “ اور قسمت میں ولن کے کردار میں پیش کیا، جن کی کام یابی نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک کام یاب وِلن ہیں، جب کہ ان کے مدمقابل اسلم پرویز اور مصطفیٰ قریشی جیسے نامور وِلن تھے۔ شاہنواز کی 150سے زاہد فلموں میں کام کیا، ان میں ”غیرت دا نشان،آگ کا سمندر،نمک حرام، اناڑی، راستے کا پھتر،چوری میرا کام، اچھے میاں، موت میری زندگی ،سیتا مریم مارگریٹ،تانگے والی سمیت دیگر فلموں شام ہیں۔ 

شاہنواز میں جذبہ ایثار و ہمدردی کے علاوہ ایک خصوصيت یہ بھی تھی کہ وہ آنے والے دنوں کو بھانپ لیا کرتے تھے، شاہد اسی بنا پر کہ فلمی صنعت کو خیرباد کہتے ہوئے واپس حیدرآباد آگئے، جہاں پر شاہنواز نے ”حیدرآباد بلڈرز اینڈ ڈولیپر “ کے نام سے کنٹریکشن کے کام کا آغاز کیا۔ اسی دوران شاہنواز نے ملک گیر شہرت کی حامل پارٹی میں شموليت احتیار کی۔ شاہنواز نے حیدرآباد میں فن و فن کار کو فروغ دینے کے غرض سے اپنی کوششوں کو جاری رکھا، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اپنے ذرائع و تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے حیدرآباد میں اسٹیج ڈراموں کے آڈٹیوریم بنانے کی منصوبہ بندی بھی کی مگرافسوس کہ وقت نے مہلت ہی نہ دی اور عین عید کے دن بعد نماز عید کے واپسی پر انہیں نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بن ایا۔ 

شاہنواز جسمانی موت تو واقع ہوگئی،مگر ان کی یادیں اور فنی خدمات آج تک زندہ ہیں۔ حیدرآباد شہر جو کہ فنونِ لطیفہ کا مرکز رہا ہے، جس نے دیگر شعبوں کے علاوہ فلم انڈسٹری کو بھی نایاب موتی دیے، جن میں شاہنواز، جیسے گوہر نایاب موتی کا نام بھی شامل ہے۔ ان کے مداح آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید