گزشتہ دنوں ضلع نوشہروفیروز اور شہید بے نظیر آباد کے درجنوں پولیس اہل کاروں کا سانگھڑاور دوسرے اضلاع میں اس الزام کے ساتھ ضلع بدر کر دیا گیا کہ وہ منشات کی خریدوفروخت میں نہ صرف سہولت کار بنے ہوئے تھے، بلکہ خود بھی منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث تھے۔ ڈی آئی جی آفس کی جانب سے جو لسٹ جاری کی گئی، اس میں ضلع شہید بینظیر آباد کے ڈی آئی جی انچارج کے علاوہ اے ایس آئی ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل رینک کے اہل کار شامل تھے، جن پر الزام یہ ہے کہ وہ ضلع شہید بینظیر آباد میں منشیات فروشی کے دھندے میں سہولت کار یا براہ راست ملوث تھے، جب کہ اس سے پہلے بھی کئی پولیس اہل کاروں کو اسی الزام کے تحت ضلع بدر کیا گیا۔ تاہم ڈی آئی جی محمد یونس چانڈیو کی جانب سے منشیات فروشی کی روک تھام کے لیے کوششیں جاری ہیں، وہ اپنی جگہ، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام بھی نہیں لے رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چرس، ہیروئن اور شراب کی فروخت کے علاوہ نشہ آور زیڈ اکیس ،گٹکا مین پوری اور ماوہ کی فروخت کُھلے عام جاری ہے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ ضلع شہید بینظیر آباد میں منشیات کے خاتمے کے لیے بھرپور کارروائی کر کے کروڑوں روپے مالیت کی منشیات کو قبضہ میں لیا گیا، اس کے علاوہ نشہ أور زیڈ اکیس ؛ گٹکا مین پوری دیگر منشیات بھی برآمد کی گئیں، جب کہ شراب کے کاروبار کرنے والوں کی بھی گردن ناپی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دوڑ شہر میں پولیس نے خفیہ اطلاع ملنے پر کارروائی کر کے صوبہ سندھ میں شراب فزوشی میں ملوث گروہ کا ایک اہم رکن بڑی تعداد میں شراب کی کھیپ کے ساتھ پکڑا گیا ہے۔
پولیس مقابلوں میں زخمی ہونے والے ایک درجن سے زائد جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جُرائم کی روک تھام پولیس کی ذمے داری ہے۔ تاہم پولیس اہل کاروں کی سستی غفلت اور فرائض سے چشم پوشی کی وجہ سے بھی جرائم کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے پولیس سے رابطے بحال ہیں، جس کی وجہ سے منشیات فروخت کرنے والے گروہ کے خلاف کارروائیاں کام یابی سے پوری طرح ہمکنار نہیں ہوتی اور اسی طرح سے دیگر جرائم جن میں ملوث لوٹ مار چوری ڈاکا زنی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہیں۔ ان میں بھی پولیس کی وہ کر کردگی سامنے نہیں آرہی، جس کی عوام توقع کرتے ہیں۔
ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ انہیں حالات کے پیش نظر انہوں نے اردلی روم میں بڑے فیصلے کیے ہیں، جن میں ضلع بھر کے افسران کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد28 اسٹیشن ہاؤس افسراور سولہ ہیڈ محرر کو ناقص کارکردگی پر بڑی سزا دی گئی ہے۔ ان 28ایس ایچ اوز کا دو سال تک پروموشن اسٹاپ کیا گیا ہے، جب کہ 5 ہیڈ محرر کو ریورڈ اور گیارہ ہیڈ محرر کا پروموشن روک دیا گیا ہے۔
ڈیوٹی میں غفلت اور لاپرواہی پر محکمانہ کارروائی کی جائے گی اور کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جزا اور سزا کا نظام ساتھ ساتھ چلتا ہے، جہاں ناقص کارکردگی پر سزا دی جاتی ہے، وہیں پولیس افسران اور اہلکاروں کو اچھی کارکردگی پر سراہا بھی جاتا ہے۔ ضلع میں جن پولیس افسران نے اپنی جان پر کھیل کر جرائم پیشہ افراد ڈاکوؤں چوروں اور ڈکیتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا یا قانون کے حوالے کیا، ایسے پولیس کے اچھے اہل کاروں کی کارکردگی پر ان کی ستائش کی گئی ہے۔ انہیں انعامات سے نوازا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک غریب شخص محمد عمر کمبھار جو کہ مزدوری کرکے اپنے گھر واپس جا رہا تھا، اسے ڈاکو نے گھیر لیا اور اس کے پاس جو مزدوری سے حاصل کی گئی معمولی رقم تھی، وہ چھین لی۔ تاہم محمد عمر کی جانب سے مزاحمت کی گئی تو ڈاکو نے اسے فائرنگ کرکے زخمی کردیا اور بعد ازاں وہ فوت ہو گیا۔ ایس ایس پی پی نے بتایا کہ اس غریب شخص کی لاش اٹھی تو ان کا دل دھل گیا اور انہوں نے پولیس کو حکم دیا کہ اس بلائنڈ کیس کو حل کیا جائے اور بعد میں پولیس نے اس کے قاتل کارو کھوسو کو کراچی سے خفیہ اطلاع ملنے پر گرفتار کیا۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ شاہ پور جہانیاں میں کراچی کے بنگلوں سے لوٹ مار کرنے والے گروہ کے پانچ ڈاکوؤں کی اچانک پولیس سے مڈبھیڑ ہو گئی تھی، جس میں سے دو کو گرفتار کیا اور تین کی تلاش جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ کراچی کے ایک بنگلے میں چھیتر لاکھ روپیہ نقد ایک کلو سونا لوٹ کر پنجاب جا رہا تھا۔ رات کا اندھیرا تھا اور ڈاکوؤں نے پولیس پر فائرنگ کر دی، لیکن پولیس نے ان کا مقابلہ کیا اور گولیوں کی بوچھاڑ میں دو ڈاکوؤں کو جن میں ایک گولی لگنے سے زخمی ہوگیا تھا اور دوسرا اس کو لے کر بھاگ رہا تھا کو گرفتار کیا اور 76 لاکھ روپے کی رقم ان کی گاڑی سے برآمد کی۔ یہ معمولی تنخواہ لینے والے پولیس اہل کار تھے، لیکن انہوں نے یہ رقم پوری کی پوری محکمہ کے حوالے کی اور بعد میں جب ڈاکوؤں سے تفتیش کی گئی تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہوں نے یہی رقم لوٹی تھی جو کہ پولیس اہل کاروں نے جمع کرائی ہے۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکوایک کلو سونا جو کہ وہاں سے لوٹا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ وہاں انہوں نے اندھیرے میں جاتے ہوئے پھینکا تاکہ لوگ سونے کو لوٹنے میں لگ جائیں اور انہیں نکلنے کا موقع ملے، لیکن ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ایک جانب اس کم تنخواہ والے پولیس اہل کاروں کا کردار تھا، تو دوسری جانب میں شہریوں کا یہ کردار سامنے آیا کہ انہوں نے ایک کلو سونا لوٹ لیا، لیکن کسی نے ایک تولہ سونا بھی پولیس کے پاس جمع نہیں کروایا اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم نے شاہ پور جہانیاں شہر میں اعلانات کرائے وہاں کے معززین سے درخواست کی، لیکن بات نہیں بنی اور کسی نے بھی اس لوٹے ہوئے سونے کو جو کہ ان کے لیے جائز نہیں تھا، واپس نہیں کیا۔ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ اس صورت حال کے سامنے آنے کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ محکمہ پولیس میں جزا اور سزا کے نظام کو مزید مضبوط بنایا جائے اور وہ پولیس اہل کار جو کہ جرائم پیشہ افراد سے مل کر یا تو انہیں سہولت دیتے ہیں یا ان کی مخبری کرتے ہیں، ایسی کالی بھیڑوں کو محکمہ پولیس سے فارغ کیا جائے۔
ادھر دوسری جانب گزشتہ دنوں لال شہباز قلندر کے میلے میں سیکیورٹی کے سلسلے میں اطراف کے اضلاع جن میں سانگھڑ نوشہرو فیروز ضلع شہید بینظیر آباد شامل تھے، یہاں سے پولیس نفری کو امن و امان کی صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے میلے پر ان کی ڈیوٹی لگائی، لیکن پولیس اہل کاروں نے بجائے ڈیوٹی پر جانے کے کراچی میں جا کر ڈاکے مارنے کو ترجیح دی اور نواب شاہ کا ایک پولیس کانسٹیبل نذیر بروہی اور اس کے ساتھ دو نوشہرو فیروز کے اس کے دوست پولیس کانسٹیبل ایک شخص سے کراچی کے علاقے میں گاڑی چھین کر اور مزاحمت پر اس کو زدوکوب کرکے اور رسیوں سے باندھ کر پھینکنے کے موقع پر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے، دھرلے گئے۔
اس کے علاوہ بھی نواب شاہ سے جو پولیس اہل کار کراچی تبادلے ہوکرگئے تھے، ان کی بڑی تعداد بھی کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں ملوث پائی گئی تھی اور اس سلسلے میں کراچی میں پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جب اسلام آباد میں سندھ سے 15 ہزار پولیس اہلکار گئے تھے، تو اس وقت کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی تھی اور اس دوران اندرونِ سندھ بھی جرائم میں کمی واقع ہو گئی تھی۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ ڈی آئی جی بے نظیر آباد ڈویژن محمد یونس چانڈیو نے بتایا کہ محکمہ پولیس کو جرائم پیشہ افراد سے بھرپور طریقے سے نمٹنے کا ٹاسک دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں روزانہ کی بنیاد پر تمام ایس ایس پیز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ رپورٹ ڈی آئی جی آفس میں ارسال