اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) یوم پاکستان کے حوالے سے ایوان صدر میں تقسیم اعزازات کی تقریب کے اختتام پر منصوبہ بندی اور ترقیات کے وفاقی وزی پروفیسر احسن اقبال اور صدر مملکت عارف علوی کے درمیان اس وقت دلچسپ مکالمہ ہوا جب واپس جاتے ہوئے ان کے قریب رک گئے اور ہاتھ ملاتے ہوئے ان کی خیریت دریافت کی
احسن اقبال نے صدر کو بتایا کہ آپ کی اہلیہ مہمانوں کی صف میں ان کے برابر بیٹھی تھیں تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ علوی صاحب نے اعزازات تفویض کرنے والی کمیٹی سے کوئی ایسا نام تو منظور نہیں کرایا جس پر آپ نے ان کی بازپرس کرنی ہو اب یہی سوال آپ سے دریافت کررہا ہوں تو صدر جن کے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ تھی کہا کہ میں پہلے ہی بازپرس اور پوچھ پڑتال کی کافی زد میں ہوں۔ وفاقی وزیر صدر کے ساتھ طویل خوش گپیوں کا ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔
صدر پروفیسر احسن اقبال سے مل کر آگے بڑھے تو ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ ان کی پنجاب اسمبلی کیلئے دی گئی انتخابات کیلئے تیس اپریل کی تاریخ تو موقوف ہوگئی ہے اس پر ان کا اب اگلا قدم کیا ہوگا تو عارف علوی نے عقب میں قدرے دور کھڑے وفاقی وزیر کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں کہ وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تقریب شروع ہونے سے پہلے ایک اخبار نویس نے ڈاکٹر اکبر ناصر سے دریافت کیا کہ انہوں نے عمران کے قتل کیلئے کوئی دستہ تشکیل دیا ہے؟ تو اس پر انہوں نے ہنس کر کہا کہ ایک تو میں ڈاکٹر ہوں اور دوسرا پولیس مین ہوں میری دونوں حیثیتیں مجھے دوسروں کی جان بچانے پر مجبور کرتی ہیں
پولیس افسر سہیل ظفر چٹھہ نے مہمان پنجاب کے سابق وزرائے اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور عثمان بزدار کے حوالے سے تحقیقات کے بارے میں استفسارات کرتے رہے جن کا جواب دینے کی بجائے وہ مسکراتے رہے۔