لاہور (صابر شاہ) امریکا میں سلیکون ویلی بینک اور سوئٹزرلینڈ میں یو بی ایس گروپ کی جانب سے کریڈٹ سوئیز کو بچانے کے واقعات کے بعد بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال نے امریکا اور برطانوی بینکاری نظام کی لیکوئڈٹی پوزیشن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بدلتے منظر نامے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مرکزی بینک اپنی معیشت کو سہارا دینے کیلئے شرح سوُد بڑھانے پر مجبور ہوگئے ہیں.
حالانکہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ قرضہ دینے والے ادارے اس بحران میں بڑھتی شرح سود کے مسئلے سے نمٹ پائیں گے یا نہیں۔
اگرچہ سعودی نیشنل بینک نے اعتراف کیا ہے کہ کریڈٹ سوئیز میں اس کی سرمایہ کاری کو 80؍ فیصد نقصان ہوا ہے لیکن سلیکون ویلی بینک کے زوال کو امریکا کے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے اقدامات کو قرار دیا جا رہا ہے۔
مغربی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سلیکون ویلی بینک نے طویل مدتی سیکورٹیز میں بھاری سرمایہ کاری اُس وقت کی تھی جس وقت شرح سوُد تقریباً صفر تھی اور شرح سوُد میں اضافے کی وجہ سے ان سیکورٹیز کی قدر میں تیزی کمی آئی۔
اسی بات نے صارفین کو چونکا دیا اور وہ بینک سے اپنا پیسہ نکلوانے لگے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلیکون ویلی بینک کے زوال کے بعد نیویارک کے سگنیچر بینک کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور صارفین نے بینک سے اپنے فنڈز نکلوا لیے۔
امریکا کے مرکزی بینک کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے برطانیہ کے بینک آف انگلینڈ نے بھی شرح سود میں اضافہ کر دیا۔
فنانشل ٹائمز نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 10.1؍ سے بڑھ کر 10.4؍ ہونے کے بعد شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے۔
دسمبر 2021ء کے بعد سے بینک نے گیارہویں مرتبہ شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی صورت میں بینک بھی شرح سود میں اضافے کیلئے تیار ہے۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے کا مطلب ہے مختلف گھرانوں کیلئے مارگیج کی قیمتیں بڑھ جائیں گی جبکہ پیسہ بینکوں میں بچا کر رکھنے والے افراد کو فائدہ ہوگا۔
گارجین کا کہنا ہے کہ دنیا کو 2008ء کے بعد سے بدترین بینکنگ بحران اور بھاری شرح سوُد کا سامنا ہے۔
امریکا کے مرکزی بینک کے چیئرمین جیروم پاول کا کہنا تھا کہ فیصلے سے قبل شرح سود میں مزید اضافے پر غور کیا جا رہا تھا لیکن بعد میں بینکنگ بحران قابو میں آیا تو شرح سود میں مزید اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
جہاں تک یورو زون کا تعلق ہے، خطے میں مہنگائی 8.5؍ فیصد ہے اور امکان ہے کہ یہ طویل عرصہ تک جاری رہے گی۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو 2؍ مارچ کو رائٹرز نے خبر دی تھی کہ مرکزی بینک نے شرح سود میں 300؍ بیس پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے اور یہ سرمایہ کاروں کی توقعات سے زیادہ ہے۔ معاشی مسائل کا شکار پاکستان آئی ایم ایف کی شرط پر عمل کی کوشش کر رہا تھا تاکہ قرضہ کی قسط مل سکے۔
رائٹرز کے مطابق، پاکستان میں شرح سوُد 20؍ فیصد ہے اور اکتوبر 1996ء کے بعد سے یہ اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ جنوری 2023ء میں پاکستان نے 100؍ بیس پوائنٹس کا اضافہ کرکے شرح سود کو 17؍ فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ پڑوسی ملک بھارت میں صورتحال اطمینان بخش معلوم ہوتی ہے حالانکہ عالمی سطح پر نمو سست روی کا شکار ہے۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عالمی سطح پر سست نمو کا نتیجہ بھارتی برآمدات میں کمی ہو سکتا ہے۔ 2000ء تا 2010ء کی 10 سالہ مدت میں، برآمدات میں سالانہ اضافہ (ڈالر کے لحاظ سے) 7؍ برسوں میں 20 فیصد سے زیادہ رہا۔ 2012ء تا 2022ء کے 10 سالہ عرصے میں صرف ایک سال کے دوران برآمدات میں 20 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔
رائٹرز کے مطابق، بھارت میں فروری 2023ء میں بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 7.45؍ فیصد ر ہی۔ اس سے پہلے یہ شرح 7.14؍ تھی۔
چین کی معیشت کی بات کی جائے تو 1978ء کی اصلاحات کے بعد سے آج تک پھل پھول رہی ہے۔ اس کی جی ڈی پی کی شرح سالانہ 9؍ فیصد ہے اور 80؍ کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر پہنچا دیا گیا ہے۔ فروری 2023ء میں آئی ایم ایف نے تخمینہ لگایا تھا کہ گزشتہ تین سال کی تین فیصد کے مقابلے میں رواں سال شرح نمو 5.2 رہنے کا امکان ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود چین کو بھی کئی معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ریئل اسٹیٹ کے سکڑنے سے چین کو مسائل کا سامنا ہے، کم ہوتی لیبر فورس اور کیپیٹل انوسٹمنٹ کے زیادہ فوائد نہ ملنے کی وجہ سے آنے والے برسوں میں نمو کا انحصار پیداواری نمو پر ہوگا۔
سی این بی سی کے مطابق، رواں سال چین کی تیل کی طلب میں 40؍ فیصد اضافہ متوقع ہے۔ تاہم، عالمی بینک نے موجودہ حالات کا تخمینہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سطح پر نمو میں کمی واقع ہو رہی ہے، 2023 میں دنیا بھر میں اقتصادی پیداوار صرف 1.7فیصد رہنے کا امکان ہے۔
ماہرین معیشت نے خبردار کیا ہے کہ زوال وسیع ہوگا اور کسی بھی طرح کا منفی واقعہ عالمی معیشت کو کساد بازاری کا شکار کر دے گا۔ سست شرح نمو 95؍ فیصد ترقی یافتہ معیشتوں اور جبکہ 70؍ فیصد ابھرتی مارکیٹس اور ترقی پذیر معیشتوں کو متاثر کرتی ہے۔
ساتھ ہی کچھ خطوں میں غربت کی شرح میں اضافے کے واضح امکانات موجود ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسکس رپورٹ کو دیکھیں تو اس میں کچھ پیشگوئیاں تھیں۔ رپورٹ میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ حکومتوں اور مرکزی بینکوں کو آئندہ 2؍ برسوں میں افراط زر کے سخت دباؤ کا سامنا رہے گا۔
معیار زندگی کے بڑھتے اخراجات بھی دنیا کیلئے خطرہ بن جائیں گے جبکہ ماحولیات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات میں ناکامی آئندہ صدی کیلئے چیلنج ہوگی، ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال عدم مساوات میں اضافہ کرے گا، خطرات بڑھ جائیں گے۔
سائبر سیکورٹی کے معاملات مسلسل باعث تشویش رہیں گے جبکہ خوراک، ایندھن اور مہنگائی کے بحران سماجی کمزوریوں کو مزید بگاڑ دیں گے۔