اسلام آباد (انصار عباسی) اب جبکہ پی ٹی آئی حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہے تو حکومتی اتحاد عوامی بیانات کے باوجود دلچسپی نہیں دکھا رہا۔
ایوانِ بالا میں اپنے حالیہ بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اسی دن عمران خان نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ ملک کی بہتری، مفاد اور جمہوریت کی خاطر وہ کسی سے بھی مذاکرات کرنے اور کسی بھی قربانی کیلئے تیار ہیں۔ لیکن ان بیانات کے باوجود حالات تبدیل نہیں ہوئے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے رابطہ کرنے پر دی نیوز کو بتایا کہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی نے بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ہونے والی حالیہ میٹنگ میں عمران خان نے مثبت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سول سوسائٹی کے زیر اہتمام کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کیلئے تیار ہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کی کوئی شرط تو نہیں، اس پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کی کل جماعتی کانفرنس کا ایجنڈا الیکشن سے جڑے تنازعات طے کرنا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں اپریل میں انتخابات ملتوی کرکے انہیں 8؍ اکتوبر کو کرانے کے فیصلے کے تناظر میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جمعرات کو کہا کہ اتحادی حکومت گرانڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے بشرطیکہ عمران خان سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے پر آمادگی کا اظہار کریں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو چاہئے کہ وہ تیسرے آپشن کی راہ ہموار نہ کریں اور اپنے دو نمائندوں کو بھیجیں، حکمران اتحاد کے دو لوگ مل بیٹھیں گے اور معاملات پر بات کریں گے۔
وزیر قانون نے افسوس کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ چار سالہ دور میں انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن ان تمام عوامی بیانات کے باوجود حکومت نے باضابطہ طور پر عمران خان یا پی ٹی آئی سے رابطہ نہیں کیا۔
اس کی بجائے، دونوں فریقین کی طرف سے ایسے غیر معمولی مصالحتی اشاروں کے باوجود، سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اور دونوں فریقین میں خلیج بڑھ رہی ہے۔
ایک طرف عمران خان کیخلاف مقدمات درج کرانے کا سلسلہ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی والے مشتعل ہو چکے ہیں اور پارٹی کے حامی پولیس والوں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں پر پٹرول بم اور پتھر پھینک رہے ہیں۔ جس وقت لاہور میں پولیس نے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، پی ٹی آئی کے مظاہرین نے پولیس والوں کی کئی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو اسلام آباد اور لاہور میں نذر آتش کر دیا۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں سیاست میں نفرت اور دشمنی بڑھ چکی ہے لیکن اب یہ پرتشدد ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے خطرناک رجحانات کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صرف دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات سے ہی دور ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ایسا نہیں ہو رہا۔
پہلے عمران خان اپنے مخالفین سے مذاکرات سے انکار کر رہے تھے۔ ان کے دور میں وہ ایک مرتبہ بھی اپوزیشن والوں کے ساتھ نہیں بیٹھے۔
عمران خان کے رویے پر اُس وقت تنقید ہو رہی تھی لیکن اب شہباز شریف کی زیر قیادت پی ڈی ایم کے رہنما پی ٹی آئی کے چیئرمین سے بات کیلئے تیار نہیں۔ حال ہی میں آصف علی زرداری نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست دانوں اور جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاست دان نہیں۔ نواز شریف نے جمعرات کو کہا کہ وہ جانتے تھے کہ عمران خان فراڈ ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ دہشت گرد بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے پاکستان کی سیاست میں ان کے جیسا فراڈ اور دہشت گرد پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
حکمران اتحاد کی سینئر ترین قیادت کی جانب سے ایسے بیانات شہباز شریف کے سینیٹ میں دیے گئے تازہ ترین بیان سے متضاد ہیں۔