کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میزبان شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک مبینہ انٹرویو میں کہا ہے کہ بنی گالہ کیس میں عمران کو فیض ،ثاقب نثار اور باجوہ نے بچایا،عمران جھوٹ بول رہا ہے اسی لئے کہا آپ پلے بوائے ہیں ،آپ کی ویڈیو موجود ہیں.
عمران نے حکومت گرانے کا کہا ،صدر علوی باہر بیٹھے تھے اندر بلاکر کہا عمران کو سمجھائیں پھر بھی عمران بات نہ مانے ۔صحافی کو مبینہ انٹرویو پر جنرل باجوہ نے تردید کردی
قانونی کارروائی کرنے کا انتباہ انہوں نے کہا کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو اس کے بعد شہباز شریف سے ملنے گیا، میں نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کا حکومت کرنے کا کیا پلان ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دو تین قوانین بناکر چار چھ ہفتوں میں الیکشن کا اعلان کرادیں گے
شہباز شریف نے عرفان صدیقی سے اختتامی تقریر بھی لکھوالی تھی، شہباز شریف نے 20مئی کو استعفیٰ دینا تھا، جنرل فیض میرے پاس آئے اور کہا کہ بنی گالہ کیس میں عمران خان کے کاغذات مکمل نہیں ہیں وہ نااہل ہوجائیں گے تو کیا کیا جائے.
جسٹس ثاقب نثار بھی کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کو نااہل کردیا تو باقی کون بچے گا ملک بھی تو چلانا ہے، میں نے بھی کہا کہ عمران خان کو نااہل کرتے ہیں تو وزیراعظم کون بنے گا
جنرل باجوہ بولے کہ جب حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تو میں نے شہباز شریف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کو ہی وزیراعلیٰ بنادیا، میں نے شہباز شریف کی کافی کلاس لی اور وہ سرجھکا کر سنتے رہے، شہباز شریف سے جتنی مرضی سخت بات کرلیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی جواب بھی نہیں دیتے
میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ صحافی شاہد میتلا کی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مبینہ گفتگو کا ایک اور حصہ سامنے آگیا ہے، اس میں انہوں نے جنرل باجوہ سے منسوب کچھ اہم اور سنگین دعوے کیے ہیں
شہباز شریف سے لے کر عمران خان سے متعلق سنگین دعوے کیے ہیں، اس سے پہلے صحافی شاہد میتلا نے بائیس مارچ کو ایک آرٹیکل لکھا تھا، جمعے کو شائع ہونے والا آرٹیکل اس مبینہ بات چیت کی دوسری قسط ہے، اہم بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے کچھ صحافیوں کو پیغام بھیجا ہے کہ انہوں نے شاہد میتلا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا ہے۔
رات گئے ایک اور اینکر نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ میں بتایا کہ جنرل باجوہ نے کسی کو کوئی انٹرویو نہیں دیا ،انہیں 2024 سے قبل کوئی بیان یا انٹرویو دینے کی اجازت نہیں،وہ اس حرکت کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے جبکہ شاہد میتلا کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جنرل باجوہ سے فروری 2023ء کو ملاقات کی ہے
اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو انہوں نے اپنے آرٹیکلز کا حصہ بنایا ہے، ن لیگ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ گزشتہ سال مئی میں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو اسمبلی تحلیل کرنے اور الیکشن میں جانے کا کہہ دیا تھا
شہباز شریف نے پچھلے سال پچیس مئی سے پہلے اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کرنا تھا یہ بات تحریک انصاف کو بتادی گئی تھی، مگر عمران خان نے کریڈٹ لینے کیلئے پھر بھی لانگ مارچ کا اعلان کیا تو نواز شریف نے شہباز شریف کو اسمبلی تحلیل کرنے سے روک دیا
اب جنرل باجوہ کا انٹرویو بھی اس بات کی تصدیق کررہا ہے، صحافی شاہد میتلا کے آرٹیکل کے مطابق میں نے جنرل باجوہ سے سوال پوچھا کیا شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا؟ تو جنرل باجوہ نے جواب دیا کہ جب 10اپریل کو عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو اس کے بعد شہباز شریف سے ملنے گیا، میں نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کا حکومت کرنے کا کیا پلان ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دو تین قوانین بناکر چار چھ ہفتوں میں الیکشن کا اعلان کردیں گے، میں بھی یہی چاہتا تھا کہ انتخابات ہوں اور اگلی حکومت فریش مینڈیٹ کے ساتھ فیصلے کرے، مگر مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری دونوں چاہتے تھے حکومت ڈیڑھ سال پورا کرے
دس اپریل کے بعد جنرل فیض نے مجھے مسلسل دو چیزیں کہنا شروع کردی تھیں، ایک یہ کہ آپ الیکشن کروا کر جائیں، دوسرا یہ کہ عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں ان سے ملاقات کرلیں، آرٹیکل کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا کہ مئی 2022ء کو شہباز شریف اور ملک احمد خان میرے گھر آئے اور کہا کہ ہم نے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر ہم بجٹ نہیں دیتے ہیں تو پانچ ستمبر کو الیکشن کروادیئے جائیں گے، اگر بجٹ پیش کرنا پڑا تو ہم پانچ اکتوبر کوا لیکشن کروانے کیلئے تیار ہیں، یوں الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ ہوگیا اور پی ٹی آئی کو بھی اس فیصلہ سے آگاہ کردیا گیا اور کہا گیا کہ اب آپ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں،
آرٹیکل کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا کہ اس کے بعد شہباز شریف لندن چلے گئے، 19مئی کو ملک احمد خان دوبارہ میرے گھر آئے اور بتایا کہ نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم الیکشن کروارہے ہیں اور کل شہباز شریف استعفیٰ دیدیں گے
شہباز شریف نے عرفان صدیقی سے اختتامی تقریر بھی لکھوالی تھی، شہباز شریف نے 20مئی کو استعفیٰ دینا تھا، ابھی ملک احمد خان بیٹھے ہی تھے کہ ایجنسی کے ایک اعلیٰ عہدیدار بھی آگئے
انہوں نے کہا کہ اگر کل شہباز شریف استعفیٰ دیتے ہیں تو پچیس مئی کو قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کرے گا؟، حکومت سے درخواست کریں کہ شہباز شریف دس دن بعد مستعفی ہوں تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ہوجائیں
آرٹیکل کے مطابق جنرل باجوہ نے اس اعلیٰ عہدیدار کو کہا کہ نواز شریف سے درخواست کریں کہ وہ ہمیں دس دن دیدیں، ا س اعلیٰ عہدیدار نے نواز شریف سے بات کی اور انہیں دس دن بعد مستعفیٰ ہونے پر منالیا، یہی بات شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور اسد عمر کو بھی بتادی گئی اور کہا کہ اب آپ لانگ مارچ کا اعلان مت کریں لیکن ان تینوں نے جواب دیا کہ عمران خان نہیں مان رہے
آرٹیکل کے مطابق جنرل باجوہ نے مزید بتایا کہ عمران خان نے پریس کانفرنس کی تو شاہ محمود قریشی بھی ساتھ بیٹھے تھے، میں نے شاہ محمود قریشی کو پیغام بھجوایا کہ آپ عمران خان کو لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے روکیں، شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو بتایا کہ وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں لیکن عمران خان نے بات کرنے سے انکار کردیا، جس کے مناظر ٹی وی اسکرین پر بھی دیکھے گئے، اسی شام ن لیگ کی قیادت میرے پاس آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہم عمران خان کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔
صحافی شاہدمیتلا کے آرٹیکل کے مطابق میں نے جب جنرل باجوہ سے سوال کیا کہ عمران خان کو بنی گالہ کیس میں نااہلی سے آپ نے بچایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن جنرل فیض میرے پاس آئے اور کہا کہ بنی گالہ کیس میں عمران خان کے کاغذات مکمل نہیں ہیں وہ نااہل ہوجائیں گے تو کیا کیا جائے
جسٹس ثاقب نثار بھی کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کو نااہل کردیا تو باقی کون بچے گا ملک بھی تو چلانا ہے، میں نے بھی کہا کہ عمران خان کو نااہل کرتے ہیں تو وزیراعظم کون بنے گا، عمران خان کی چالیس سال پرانی رسیدیں دستیاب نہیں تھیں، بینکس بند ہوگئے تھے، عمران خان نااہلی سے بچ گئے اس کے بدلے جہانگیر ترین کو نااہل کردیا گیا۔
صحافی شاہد میتلا کے مطابق میں نے جنرل باجوہ سے سوال پوچھا کیا اسٹیبلشمنٹ حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے کے خلاف تھی؟ تو جنرل باجوہ بولے کہ جب حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تو میں نے شہباز شریف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کو ہی وزیراعلیٰ بنادیا، میں نے شہباز شریف کی کافی کلاس لی اور وہ سرجھکا کر سنتے رہے، شہباز شریف سے جتنی مرضی سخت بات کرلیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی جواب بھی نہیں دیتے
آرٹیکل کے مطابق جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز انتہائی نکما ہے، سلیمان شہباز کافی تیز اور باصلاحیت ہے، شہباز شریف کمزور وزیراعظم ہیں ، ان سے نہ حکومت چل رہی ہے نہ وزراء ان کی بات سنتے ہیں، بڑے میاں آئیں گے تب ہی حالات بہتر ہوں گے
آرٹیکل کے مطابق جنرل باجوہ نے مزید بتایا کہ ایوان صدر میں عمران خان سے ملاقات ہوئی تو حیران رہ گیا کہ عمران خان مجھ سے بہت اچھے طریقے سے ملے، میں ان کی منافقت پر حیران تھا کیونکہ وہ عوام میں مجھ پر بھرپور تنقید کرتے تھے، میں نے کہا کہ آپ مجھے میرجعفر اور میرصادق کہتے ہیں مگر عمران خان صاف مکر گیا اور کہا کہ میں نواز شریف اور شہباز شریف کو کہتا ہوں
عمران خان کہنے لگے کہ بس آپ حکومت گرادیں اور الیکشن کروائیں، میں نے عارف علوی کو اندر بلالیا جو اس سے پہلے باہر بیٹھے تھے اور انہیں کہا کہ عمران خان کو سمجھائیں کہ کیسے حکومت گراسکتے ہیں، پھر عارف علوی نے بھی ان کو سمجھایا، یہ ملاقات بے نتیجہ رہے
شاہد میتلا کے آرٹیکل کے مطابق میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا آپ نے عمران خان کو پلے بوائے کیوں کہا تھا؟ تو جنرل باجوہ نے بتایا کہ عمران خان سے جب دوسری ملاقات ہوئی تو میں بڑے غصے میں تھا کیونکہ وہ مسلسل میرے بارے میں جھوٹ بول رہے تھے، میں نے عمران خان کو کہا آپ اپنی زبان پر کنٹرول کریں ورنہ میرے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ ہے، آپ جھوٹ بولنا بند کریں، عمران خان نے کہا کہ آپ کیاکرلیں گے؟، میں نے کہا کہ کیا آپ پلے بوائے نہیں رہے؟
آپ کی ویڈیوز بھی موجود ہیں ، اگر زبان بند نہ کی تو گلہ نہ کیجئے گا، اس طرح یہ ملاقات بھی تلخی پر ختم ہوگئی۔ سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں آئی ایم ایف کے سوا کوئی بی پلان نہیں ہوسکتا ہے
آئی ایم ایف کے پاس اسی وقت جاتے ہیں جب آپ کو کوئی بھی قرض نہیں دے رہا ہو، سعودی وزیر خزانہ کے بیان کے بعد یہ کہنا کہ ہمارے پاس پلان بی ہے میرے خیال میں درست نہیں ہے، لگتا ہے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جوں کے توں کھڑے ہیں، آئی ایم ایف بضد ہے پاکستان معاہدہ سے پہلے چھ بلین ڈالرز کا انتظام کرے، اس وقت زبردست معاشی سفارتکاری کی ضرورت ہے.
عرب ممالک اور چین کو ہمیں پاکستان کو قرضے ری رول کرنے کے بجائے چھ ارب ڈالرز فریش منی دینا چاہئے، پیرس کلب کے ممالک سے بھی ڈپازٹ کیلئے بات کرنی چاہئے،سعودی عرب اور یو اے ای سے اعلیٰ ترین سطح پر بات کرنی چاہئے، اس وقت پاکستان کو پانچ سے چھ ارب ڈالرز کی اشد ضرورت ہے
پاکستان ڈیفالٹ یا ری اسٹرکچرنگ کیلئے گیا تو دنیا کیلئے بھی بہتر نہیں ہوگا، دنیا کیلئے بھی اچھا نہیں ہے کہ پاکستان جیسا بڑا ملک ڈیفالٹ کرجائے،امریکا بمقابلہ چین کی بحث بھی چلتی ہے جو ہمارے بس میں نہیں ہے لیکن ہمیں ڈیل کرنا پڑتا ہے، امریکا کو ایسا نہیں لگنا چاہئے کہ آئی ایم ایف کے پیسے چین کو جائیں گے۔