پاکستان میں اِس وقت سیاسی کشیدگی میںمسلسل اضافہ اور حکومت کی ناقص معاشی حکمت عملی کی وجہ سے ہر علاقے اور صوبہ میں عوام کی اکثریت پریشان کن گھریلو ، معاشی اور سماجی پریشانیوں کی وجہ سے ــ’’بے زاری ‘‘کے ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے ، جس کی وجہ سے عام افراد جن کا ایلیٹ کلاس سے کوئی لینا دینا نہیں وہ جمہوریت اور سیاسی رہنمائوں کی آپس میں اُ لجھنوں اور مسلسل لڑائی جھگڑے والے بیانات سے تنگ آکر اب عوامی سطح پر طرح طرح کے الفاظ میں اپنا رد عمل ظاہر کر رہے ہیں ،جس میں سیاسی میدان میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور آپ کے لہجے سے نکل کر ’تم‘سے ایک دوسرے کو پکارنے کا رواج تشویشناک ہو رہا ہے ، یہ سیاستدان معاشرے میں اخلاقی روایات کا پاس کیوں نہیں کر رہے؟الزام تراشی کی سیاست کی بجائے وہ عملی طور پرملک کو مشکل ترین معاشی حالات سے نکلنے کا کوئی پروگرام کیوں نہیں دے رہے، کیا اب تک کسی بھی بڑی سیاسی جماعت یا اتحاد نےIMFکے ساتھ یا اس کے بغیر معیشت چلانے کا کوئی قابل عمل حل قوم کے سامنے پیش کیا؟ کچھ ایسی ہی صورتحال 1977میں مئی جون کے دنوں میں نظر آرہی تھی، جب کہ اُس وقت کی حکومت سے نجات کے لئے مساجد میں اذانیں تک دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اب خدا کرے کہ وہ تاریخ نہ دہرائی جائے اور تشدد اور الزام تراشی کی سیاست سے گریز کیا جائے، تو اس میں سب کا فائدہ ہے ان سب کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتا کہ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی کمانے اور روزگار بچانے کا ہے، جس کے بارے میں افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن، سیاسی قیادت عملی طورپر کوئی قابلِ عمل معاشی حل پیش نہیں کرر ہی ، ہر طرف سوائے دعوئوں اور الزام تراشی کے کچھ نہیں۔ ایک دوسرے کو عزت سے بلانے کی بجائے سیاسی اور اخلاقی روایات کے برعکس’ تم ‘کے لہجے میں بلانا ہماری روایت نہیں ۔نئی نسل کی صحیح سمت میں تربیت اس وقت سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، 30/40سال پہلے والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تھے اب اُن میں اکثریت بڑھاپے کی طرف گامزن ہے ، مجموعی طور پر اپنے اپنے گھر کے بجٹ کو چلانا مسئلہ بن چکا ہے اس مسئلے کا حل ہمیشہ ریاست کے پاس ہوتا ہے، وہ عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف اور ان کے جانی و مالی تحفظ کو سب کاموں پر ترجیح دیتی ہے لیکن اب تو ریاست کے نام پرصرف سیاست کی جا رہی ہے ، عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے چیلنج کو صحیح طریقے سے ایڈریس نہیں کیا جا رہا،اس کا آسان حل یہی ہے کہ ملک میں گورننس بالخصوص اکنامک گورننس کی بہتری پر بھر پور توجہ دی جا ئے،اگر ہمارے سیاسی قائدین چارٹر آف اکانومی پر اتفاق نہیں کرتے تو عوامی حلقوں کی خواہش ہے کہ آرمی چیف یا فوجی قیادت اگر ملک کے سر کردہ دس بارہ بزنس مینوں سے معاشی حالات میں بہتری کیلئے مشاورت کر سکتی ہے تو پھر سیاسی قائدین کو کیوں نہیں مدعو کیا جا سکتا، اِس کے علاوہ چاروں صوبوں میں عوام اور کاروباری اداروں کے حقیقی مسائل سے آگاہی کیلئے لاہور ، کراچی، کوئٹہ، پشاور میں بھی ایسی نشستوں کا اہتمام کرنے میں کوئی حرج نہیں ، جنرل پرویز مشرف کے دور میں نئے بلدیاتی نظام کے اجرا سے قبل جنرل نقوی اور اُن کی ٹیم نے صدر مشرف کے ہمراہ چاروں صوبوں میں مختلف طبقوں کے افراد سے گورنر ہائو س اور دیگر مقامات پر مشاورت کی تھی، موجودہ حالات کے پس منظر میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیںکیونکہ اس وقت ریاست اور عوام دونوں ہی پاکستان کے سیاسی اور معاشی مستقبل کے حوالے سے فکر مند نظر آرہے ہیں ، خدشہ ہے کہ اگر الزام تراشی کی سیاست اور تشدد کے رحجانات کو نہ روکا گیا تو عوام خود بھی اپنے معاشی حقوق کے تحفظ اور ریاست کی ساکھ کو بچانے کیلئے احتجاج شروع کر سکتے ہیں، جس سے سب سےبڑاچیلنج جمہوریت اور سیاسی قائدین کو در پیش آئے گا، کیونکہ اب تک مہنگائی کے سرکاری ا عدادو شمار 30فیصد ہوں یا 40فیصد ، عام مارکیٹوں اور مقامات پر اشیائے ضروریہ کی گرانی کی شرح اِس سے بھی کافی زیادہ ہے ، اِسی حوالے سے جنوری 2023، میں عالمی جریدے FORBESمیں شائع ہونے والے آرٹیکل کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں بین الاقوامی سطح پر آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات ظاہر کئےگئے ہیں ، اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان یقینی طور پر اِس کی زد میں آئےگا، جس سے عوام کی معاشی مشکلات میں اضافے سے قوم میں ہر چیز سے بے زاری مزید بڑھ سکتی ہے ۔