• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرامن اور شفاف انتخابات، حکومت، PTI یقین دہانی کرائیں، ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، چیف جسٹس سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں عام انتخابات موخر کرنے کے فیصلے کیخلاف تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائے کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟ ہم ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں، آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا گرانے نہیں عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ہوتی ہے، تحریک انصاف بھی امن و استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے الیکشن کمیشن کے پاس صدر کی دی گئی تاریخ بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں؟۔ دوران سماعت عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے سماعت دو تین دن کیلئے ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کو آج بروز منگل شیڈیول واپس لینے اور انتخابات موخر کرنے کے حوالے سے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے، عدالت نے تمام فریقین مقدمہ سمیت گورنر پنجاب اور گورنر خیبر پختونخوا کو بھی بذریعہ متعلقہ چیف سیکرٹریز نوٹسز جاری کردیئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی، جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی اسد عمر، میاں محمود الرشید اور عبد الرحمان کی آرٹیکل 184(3)کے تحت دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر پیش ہوئے اور الیکشن کمیشن کے 22مارچ کے فیصلے کو کالعدم کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے خیال میں الیکشن کی تاریخ آگے کرنا درست نہیں ہے؟ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرنا کیسے غلط ہے، ہمیں آگاہ کریں، جس پر فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نگران حکومت کا مقصد صرف 90روز کے اندر اندر انتخابات منعقد کرانا ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 90 دن سے پانچ ماہ آگے کردیئے جائیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات موخر کرکے آئین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، عدالت نے90 روز سے تجاوز کی صرف انتخابی سرکل پورا کرنے کیلئے اجازت دی تھی، انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ وفاقی وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے سکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا ہے، حالانکہ آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اکتوبر میں ملکی حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ پہلے الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، اب اس نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی، کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن شیڈول کب جاری ہوا ہے؟ تو فاضل وکیل نے بتایا کہ الیکشن شیڈول 8 مارچ کو جاری کیا گیا تھا، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، گورنر خیبرپختونخوا نے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کی تاریخ نہیں دی، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد پنجاب میں انتخابات کیلئے 30 اپریل کی تاریخ دی تھی، سپریم کورٹ نے 90 دن کے قریب ترین مدت میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم جاری کیا تھا، اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے بعد انتخابات کی تاریخ دیکر بھی توہین عدالت کی گئی ہے، الیکشن کمیشن نے آئین کو تبدیل یا پھر معطل کردیا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ان سے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ فاضل وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم نامہ پر عملدرآمد کرائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی حکم پرعملدرآمد کرانا ہائیکورٹ کا کام ہے، فاضل وکیل نے کہا کہ اگر ہم فنڈز نہ ہونے کی وجہ کو مان لیں تو الیکشن کبھی بھی منعقد نہیں ہوسکیں گے، انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف عدالت کے حکم پر عملدرآمد کا نہیں، بلکہ دو صوبوں کے عام انتخابات کا معاملہ ہے جسے ایک ہائیکورٹ نہیں سن سکتی ہے، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرچکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی موجود ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن نے22 مارچ کو الیکشن کی تاریخ منسوخ کی اور 8 اکتوبر کی نئی تاریخ کا اعلان کردیا، اگرفنڈز کا جواز تسلیم کرلیا گیا تو ہر حکومت اس بنیاد پر انتخابات نہیں کرائے گی، دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ انتخابات ملتوی کرنے کے معاملے میں الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا، انتہائی افسوناک صورتحال ہے کہ تمام فریقین دست و گریباں ہیں، انہوں نے کہا کہ قیام امن کیلئے تحریک انصاف نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ اگر آپ انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا، یقین دہانی کیسی ہوگی؟ یہ فیصلہ دونوں فریقین خود کریں، عوام کیلئے کیا اچھا ہے کیا نہیں؟ اس حوالے سے بھی فریقین خود جائزہ لیں، تاہم انتخابات پرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کیلئے بہت اہم ہے، الیکشن کا عمل شفاف اور پرامن ہونا چاہئے، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، اس ضمن میں ہمارے لیڈرز نے اب تک کیا کیا ہے؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہمارے سیاست داں ملک میں استحکام کیلئے کیا کر رہے ہیں؟ یہ بہت پریشان کن صورتحال ہے، ایک سوچ ہے کہ ملک میں انتخابات اسی وقت منعقد ہونے چاہئیں۔

اہم خبریں سے مزید