اسلام آباد ( رپورٹ، رانا مسعود حسین، ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ کے جج ، مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جما ل خان مندو خیل نے’’پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجرا میں تاخیر‘‘ کے تنازع سے متعلق از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کی یکم مارچ کی کارروائی سے متعلق 27 صفحات پر مشتمل اپنا مشترکہ تفصیلی فیصلہ جاری کر تے ہوئے قرار دیا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی جانب سے اس حوالے سے لئے گئے ازخود نوٹس اور دائر کی گئی آئینی درخواستوں کو 7 رکنی بنچ کے رکن 4 ججوں(جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللّٰہ) کی اکثریت نے مسترد کیا تھا ، اسلئے یکم مارچ کا ازخود نوٹس کیس کا حکنامہ چار تین کی اکثریت سے جاری کیا گیا ہے،جس میں چیف جسٹس کے از خود نوٹس اوراس حوالے سے دائر تمام درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں اور لاہور اور پشاور ہائیکورٹ کو حکم جاری کیا جاتا ہے کہ وہ اس تنازع کے حوالے سے زیرالتواء درخواستوں پر تین روز کے اندر اندر اپنا فیصلہ جاری کریں۔جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جما ل خان مندو خیل نے مشترکہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو چیف جسٹس کے’’ون مین پاور شو‘‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ شاہی عدالت نہ بنے،سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا، جب ایک شخص کے پاس بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے تو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ ادارہ آٹوکریٹ اور غیر محفوظ ہو جائے گا جسکے نتیجے میں ایک شخص کی پالیسیوں پر عمل کیا جائے گا جس میں لوگوں کے حقوق اور مفادات کیخلاف جانے کا رجحان پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے اور یہ گڈگورننس کے بھی خلاف ہے، بنچ کی تشکیل کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی،وقت آگیاہے چیف جسٹس آفس کا ون مین شو کا لطف اٹھانے کاسلسلہ ختم کیا جائے،کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس کے پاس بے لگام طاقت، جس کا وہ لطف لیتے ہیں، عدلیہ کا وقار پست اور کڑی تنقید کی زدمیں ہے، یہ فیصلہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے،سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی، پاناماکیس میںپہلا عدالتی حکم تین دو کے تناسب سے آیا تھا، سیاسی جماعتوں کی شدید تقسیم نے ملک میں چارجڈ سیاسی ماحول قائم کر رکھا ہے، سپریم کورٹ از خود نوٹس لیکر خود کو سیاسی جھنڈ میں دھکیلا، یہ سلسلہ دو اسمبلیوں کی تحلیل، وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب تک بھی جا پہنچا، یکم مارچ کا الیکشن ازخود نوٹس کیس کا آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے، از خود نوٹس کارروائی جلد با زی میں شروع کی گئی، سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کیے جائیں، لاہور اور پشاور ہائیکورٹ تنازع کے حوالے سے زیرالتواء درخواستوں پر تین روز کے اندر فیصلہ جاری کریں، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرعلی نقوی نے خود ہی سماعت سے معذرت کرلی تھی،جبکہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر کے فیصلے کو مرکزی فیصلے میںشامل نہ کرنے کا مطلب بینچ سے انکی مرضی کے بغیر نکالنے کے مترادف ہو گا، صوبائی معاملات میں سپریم کورٹ کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، عدالت عظمیٰ کو ہائیکورٹ کی خودمختاری مجروح نہیں کرنی چاہیے، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پیرکے روز میڈیا کو جاری کیا گیا27صفحات پر مشتمل یہ مشترکہ فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے قلمبند کیا ہے ،جس کے آ خر میں دونوں فاضل ججوں کے دستخط موجود ہیں، مشترکہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو چیف جسٹس کے’’ون مین پاور شو‘‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی، سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے،اب وقت آگیاہے کہ چیف جسٹس کے عہدہ کا ون مین شو کا لطف اٹھانے کاسلسلہ ختم کیا جائے،فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت حاصل از خود نوٹس کے اختیار کے بارے میں بھی سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے ذریعے ایک مربوط پالیسی مرتب کرنا ہوگی، مشترکہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب توسپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وسیع اختیارات سے نوازا گیا ہے اور دوسری جانب ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہی ادارہ قومی اداروں کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتاہے، لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا ہے، فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس لینے، بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کو مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے، چیف جسٹس کے پاس یہ ایک بے لگام طاقت ہے جسے وہ استعمال کرتے ہیں،فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے اختیارات کے بے دریغ استعمال سے سپریم کورٹ کا وقار پست اور کڑی تنقید کی زد میں آ رہا ہے،مشترکہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارا یہ فیصلہ جسٹس یحی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے، ایک کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ کی ہیت تبدیل نہیں ہو سکتی ہے،فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ ایک آئینی ادارے کے رکن ہونے کے ناطے ہمارا ہر عمل تاریخ کا حصہ بنتا اور زیر بحث آتا ہے، فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کو 7 میں سے 4 ججوں نے مسترد کیا تھا،ہم جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے 22فروری کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے ان آئینی درخواستوں کو خارج کر تے ہیں جبکہ اس ضمن میںہونے والی از خود نوٹس کاروائی کو بھی ڈراپ کیا جاتا ہے،فاضل ججوںنے قرار دیا کہ اس کیس کے حقائق و واقعات کے تنا ظر میںآئین کے آرٹیکل184/3کے تحت از خود نوٹس کاروائی کو شروع کر نے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ، مشترکہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے اس از خود نوٹس کارروائی کوکسی بھی جواز کے بغیر جلد با زی میں شروع کیا گیاہے،حالانکہ لاہور ہائی کورٹ اور پشا ور ہائی کورٹ میں پہلے ہی اس معاملہ کے حوالے سے درخواستیں زیر سماعت تھیں ،جن میں صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواء کی صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق سوالات کا جائزہ لیا جا رہا تھا،لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے پہلے ہی درخواست گزار کے حق میں فیصلہ جاری کردیا تھااور یہ فیصلہ آج بھی موجود ہے، جسکے خلاف ڈویژن بینچ میں اپیلیں دائر کی گئی ہیں ،مشترکہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے درخواست گزارو ں میں سے کسی نے بھی سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل185 کے تحت اپیلیں دا ئر نہیں کی ہیں،فاضل ججوںنے قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ میں ان درخواستو ں کی سماعت میں کسی قسم کی کوئی تا خیر بھی نہیں ہوئی تھی جبکہ سپریم کورٹ کی موجودہ کارروائی ہائیکورٹ میں بلا جواز تا خیر کا موجب بنی ہے، فا ضل ججوں نے مشترکہ فیصلے میںقرار دیا ہے کہ بہتر ہوگا کہ اس طرح کے سیاسی معا ملات پارلیمنٹ میں حل کیے جائیں ،فا ضل ججوں نے قرار دیا ہے کہ ا گر ایک دفعہ کسی جج کو ایک بینچ میں شا مل کرکے کیس اس کے ذمہ لگا دیا جائے تو اسکو اس وقت تک بینچ سے نہیں نکالا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ کسی بنیاد پر خود کیس کی سماعت سے معذرت نہ کر لے یا پھر بعض غیر متوقع وجوہات کی بنا پر بینچ میں نہ بیٹھ سکتا ہو؟فاضل ججوںنے اس مقدمہ کی ابتدائی سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری اختلافی نوٹ سے متعلق قرار دیاہے کہ اگر کوئی جج شروع میں ہی اپنا حتمی فیصلہ جاری کردیتا ہے اور عدالت کی بعد کی کاروائی میں وہ شامل نہیں ہوتا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس جج نے کیس کی سماعت سے ہی معذرت کرلی ہے اور نہ ہی یہ چیز اس جج کے بینچ سے اخراج کا کوئی جواز ہے،فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ابتداء میں ہی اپنا اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے انہیں بینچ میں مزید رکھنے یا نہ رکھنے کا آپشن چیف جسٹس کی صوابدید پر چھو ڑ دیاتھا، اس لئے چیف جسٹس کی جانب سے انہیں مزید سماعت میںشامل نہ کرنے کے آپشن کا استعمال ان دو فاضل ججو ں کی جانب سے جاری کیے گئے عدالتی فیصلے پر کوئی اثر نہیں رکھتاہے کیونکہ چیف جسٹس کی جانب سے نئے بینچ کی تشکیل محض ایک انتظامی معاملہ تھا ،جس میں با قی پانچ ججو ں نے کیس کی سماعت کر نا تھی، فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ اس لئے دونوں ججو ں( جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ) کی جانب سے جاری کئے گئے عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے،اسلئے ہماری جانب سے ان دونو ں کے عدالتی فیصلے کو تمام ججو ں کے حتمی فیصلے میں شا مل کیا جا تا ہے،فاضل ججوںنے مزید قرار دیاہے کہ یہ با ت ا ہم ہے کہ دیگر دو ججو ں،( جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی) کو اس بینچ سے ہٹایا نہیں گیاتھا بلکہ انہو ں نے اعتراضات کے بعد خود ہی اس کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی،جبکہ اول الذکر دو ججو ں( جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ) کے فیصلے کو مرکزی فیصلے میںشامل نہ کر نے کا مطلب، ان کو بینچ سے ان کی مرضی کے بغیر نکالنے کے مترادف ہو گا، جس کی قانون میں کوئی اجازت نہیںہے اور یہ چیف جسٹس کے اختیارات میں بھی نہیں آتا ہے،فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ ہماری را ئے ہے کہ ازخود نوٹس کاروائی کو ڈراپ کر نے اور ان آئینی درخواستو ں کو مسترد کر نے کا فیصلہ سات رکنی بینچ میں سے چار تین کے تنا سب سے دیا گیا ہے،فا ضل ججوں نے ا س ضمن میں پانامہ کیس کے پانچ رکنی بنچ کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں دو جج(جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد) 20اپریل 2017کو کیس کی ابتداء میں ہی اپنا فیصلہ جاری کرنے کے بعد بنچ سے علیحدہ ہوگئے تھے جبکہ با قی تین ججو ں(جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن ) نے کیس کی مزید سماعت جاری رکھی اورپھر 28 جولائی کو اپنے فیصلے میں اول الذکو دونوں فاضل ججوں کے فیصلے کو بھی اپنے حتمی فیصلے میں شا مل کیا تھا،بعد ازاں پانچوں ججو ں نے ہی اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی میاں نواز شریف وغیرہ کی نظرثانی کی درخواستو ں کی سماعت بھی کی تھی، دونوںفا ضل ججوں نے مشترکہ فیصلے میں قرار دیاہے کہ ادارے کے استحکام اور عدالتو ں پر عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ ہم ون مین شو کے اختیارات پر نظر ثانی کر یں جو کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہیں،عدالتیں کسی ایک تنہا شخص( چیف جسٹس) کے فیصلو ں کی محتاج نہیں ہو سکتی ہیں،ان امور کی آرٹیکل191کے تحت تمام ججو ں کی منظوری سے قواعد کی بنیاد پر ایک سسٹم کے تحت انجام دہی ہو نی چا ہیے، جن میں آرٹیکل184کے تحت از خود نوٹس کاروائی، ریگولر اور خصوصی بنچوں کی تشکیل شامل ہے،مشترکہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے وفاقیت کا بنیادی اصول ہی صوبائی خودمختاری ہے،ایک ہائیکورٹ صوبائی سطح پر سب سے اعلی آئینی ادارہ ہوتا ہے ، صوبائی معاملات میں سپریم کورٹ کو بلا وجہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اور ہائی کورٹ کی خودمختاری مجروح نہیں کرنی چاہیے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی شدید تقسیم نے ملک میں جذباتی /تناؤ والاسیاسی ماحول قائم کر رکھا ہے،ایسے سیاسی ماحول میں سپریم کورٹ کا کسی سیاسی جھنڈ میں شامل ہونا ؟تنقید کا ہی باعث بنتا ہے، فاضل ججوںنے قرار دیا ہے کہ ایک جمہوری نظام کبھی بھی تقسیم سے خالی نہیں ہوسکتاہے، سیاسی نظام کا مقصد ہی ایسے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنا ہے ،یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ʼʼ پنجاب پولیس کے ایک سی سی پی او کے تبادلہ ʼʼ سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے چیف جسٹس کو پنجاب اور خیبر پختونخوا ء کی صوبائی اسمبلیوںمیں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجراء میں تاخیر کے حوالے سے از خود نوٹس لینے سے متعلق ایک نوٹ بھجوایا تھا ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ابتدائی طور پر اس کیس کی سماعت کے لئے(اپنی) چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 9رکنی لارجر تشکیل دیا تھا،تاہم ابتداء میں ہی مسول الیان نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض کردیا تو دونوں فاضل ججوں نے مروجہ اصول کے مطابق خود کو اس بنچ سے علیحدہ کرلیا جبکہ ابتدائی سماعت پر ہی جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ نے اس از خود نوٹس کو مسترد کرتے ہوئے اس حوالے سے دائر آئینی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں بینچ میں مزید رکھنے یا نہ رکھنے کا آپشن چیف جسٹس کی صوابدید پر چھو ڑ دیاتھا،جسکے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میںجسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس نے 28فروری کو کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ،جوکہ یکم مارچ کو جاری کیا گیا ،جس میں پانچ رکنی بینچ نے تین دوکے تناسب سے جاری اکثریتی فیصلے میں آئینی درخواستیں اور ازخود نوٹس کیس نمٹاتے ہوئے قرار دیاتھا کہ اگرصوبائی اسمبلیاں قبل ازوقت تحلیل ہو جائیںتو عام انتخابات کی تاریخ دینا گور نر اور صدر کی آئینی ذمہ داری ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی سے اختلاف کرتے ہوئے آئینی درخواستوں کو ناقابل سماعت اور از خود نوٹس کو بلا جواز قراردیتے ہوئے مسترد کردیاتھا۔