کراچی (ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ دو ججوں کے تفصیلی فیصلے سے سپریم کورٹ کی قانونی ساکھ کو دھچکا لگا ہے، دو سینئر ججوں نے چیف جسٹس کے ون مین شو پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں، عمران خان بجلی کے بل دیدیں ان کیخلاف بجلی چوری کا مقدمہ نہیں ہوگا، زمان پارک میں رسائی دینے کیلئے کہا گیا ہے تاکہ ہم چیکنگ کرسکیں، پی ٹی آئی کارکنوں کو لاپتہ کرنا ہماری پالیسی نہیں ہے۔ وہ جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سابق صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین اور ماہر قانون بیرسٹر صلاح الدین بھی شریک تھے۔شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس میں فیصلہ وہی ہے جو تین ججو ں نے اکثریت سے دیا، عدالتی فیصلے کو 4-3تصور کیا جاتا ہے تو یہ 5-4تصور ہوگا کیونکہ باقی دو جج صاحبان اپنی رائے دے چکے تھے ،آج کا جسٹس منیر وہ شخص ہوگا جو 90دن میں الیکشن نہ ہونے کا فیصلہ دے گا، کوئی بھی جج خود کو جسٹس منیر کے ساتھ ملانے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس، بنچ کی تشکیل اور کیس فکس کرنے کے اختیارات ریگولرائز کرنے کی ضرورت ہے، الیکشن ازخود نوٹس کیس میں فل کورٹ بنادیا جاتا تو کیا حرج تھا، فل کورٹ فیصلہ دیتا تو حکومت اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔ میزبان حامد میر نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے تھے پہلے سیاسی جماعتوں میں بغاوت ہوا کرتی تھی لیکن اب ہماری اعلیٰ عدلیہ میں بھی بغاوت شروع ہوگئی ہے۔وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں واضح تناؤ نظر آرہا ہے، دو ججوں کے تفصیلی فیصلے سے سپریم کورٹ کی قانونی ساکھ کو دھچکا لگا ہے، سپریم کورٹ کے اندر اور سویلین و اسٹیبلشمنٹ کی کشمکش میں بالآخر فتح آئین کی ہوگی، دو سینئر ججوں نے چیف جسٹس کے ون مین شو پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں، ایسے آئینی معاملات جن کے سیاسی مضمرات ہوتے ہیں وہ کیسز سپریم کورٹ کے ججوں کا مخصوص گروپ سنتا ہے،سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی اور عمران خان کو مختلف طریقوں سے ہینڈل کیا ہے۔خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ ابھی فیصلہ ہونا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 218/3کی موجودگی میں اپنی اتھارٹی استعمال کرسکتا ہے ہماری نظر میں نہیں کرسکتا بہرحال فیصلہ عدالت میں ہوگا، میری ذاتی رائے میں 90دن کے اندر صوبائی انتخابات کروانے چاہئیں، کسی شہری یا رکن پارلیمنٹ کو نااہل حکومت نے نہیں عدالتوں نے کرنا ہے، صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکتوبر سے آگے نہیں جائیں گے، عمران خان بجلی کے بل دیدیں ان کیخلاف بجلی چوری کا مقدمہ نہیں ہوگا، عزت و احترام سے زمان پارک میں رسائی دینے کیلئے کہا گیا ہے تاکہ ہم چیکنگ کرسکیں، عمران خان نے چوری نہیں کی تو تلاشی کیوں نہیں دیتے۔ خرم دستگیر خان نے کہا کہ عمران خان بار بار جتھے لے کر عدالتوں اور پولیس پر حملہ آور ہوتے ہیں، پی ٹی آئی کارکنوں کو لاپتہ کرنا ہماری پالیسی نہیں ہے، تمام پی ٹی آئی کارکنوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے عدالت میں پیش کیا جائے گا، اظہر مشوانی ہمارے پاس نہیں ہیں۔ سابق صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز بیٹھ کر اعلیٰ عدلیہ کے رولز بناتے ہیں، الیکشن ازخود نوٹس کیس میں فیصلہ وہی ہے جو تین ججو ں نے اکثریت سے دیا، باقی دو ججوں نے اختلافی نوٹ دیا تھا، دو ججوں نے اختلافی نوٹ دیاجس میں لکھا ہم جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی سے متفق ہیں، اگر عدالتی فیصلے کو 4-3تصور کیا جاتا ہے تو یہ 5-4تصور ہوگا کیونکہ باقی دو جج صاحبان اپنی رائے دے چکے تھے کہ یہ 184/3کا کیس بنتا ہے۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ آج الیکشن ملتوی کیے گئے تو آئندہ اس کا راستہ کھل جائے گا، پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ طرز عمل نہیں رکھنا چاہئے اس کے بہت خراب اثرات آئیں گے، آج ایک لحاظ سے مولوی تمیز الدین کیس سپریم کورٹ میں دوبارہ پینڈنگ ہے، آج کا جسٹس منیر وہ شخص ہوگا جو 90دن میں الیکشن نہ ہونے کا فیصلہ دے گا، آج کوئی بھی جج خود کو جسٹس منیر کی روح کے ساتھ ملانے کیلئے تیار نہیں ہوگا، آئین کا تقاضا ہے الیکشن 90دن کے اندر ہوں۔شعیب شاہین نے کہا کہ عمران خان پاکستان کا واحد سیاسی لیڈر ہے جس پر آٹھ ماہ میں 100سے زائد مقدمات درج ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سینئر ترین جج ہیں انہیں بنچ میں شامل ہونا چاہئے۔ماہر قانون بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس، بنچ کی تشکیل اور کیسوں کی فکسیشن کے اختیارات ریگولرائز کرنے کی ضرورت ہے، بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز عرصہ سے نئے رولز بنانے کا مطالبہ کررہی ہے، موجودہ و ریٹائر ڈ ججوں نے بھی یہی بات کی کہ سیاسی نوعیت کے معاملات پر بنچوں میں مخصوص ججوں کو شامل کیا جاتا ہے، آئین کے تحت انتخابات 90دن میں ہونے چاہئیں،الیکشن ملتوی کیس میں تشکیل دی گئی بنچ میں فیصلہ تین دو سے آسکتا ہے۔میزبان حامد میر کے سوال چیف جسٹس نے پانچ رکنی بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو دوبارہ شامل کرلیا ہے، اس پر لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ کیا ہوگا، یہ تاثر کیوں پیدا ہوگیا ہے کہ عام پبلک خود ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کا اندازہ لگالیتی ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس میں جسٹس اعجاز الاحسن پچھلی مرتبہ خود بنچ سے علیحدہ ہوئے تھے، زیادہ تر جو بنچ ازخود نوٹس لیتی ہے وہی کیس سن رہی ہوتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے اس وقت بنچ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا، اب جبکہ اس فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس ہے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کیوں اس بنچ میں شامل ہونا مناسب سمجھا یہ وہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس میں فل کورٹ بنادیا جاتا تو کیا حرج تھا، چیف جسٹس بنچ میں تمام ججوں کو شامل کریں اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے، فل کورٹ فیصلہ دیتا تو حکومت اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی، سیاسی کیسوں میں گھوم پھر کر تین چار مخصوص جج صاحبان شامل کیے جاتے ہیں تو لوگ اس پر اعتراض کریں گے، کیا ان تین چار جج صاحبان کے علاوہ کوئی جج آئینی معاملات پر فیصلہ دینے کا اہل نہیں ہے یا ان کی دیانتداری پر مسئلہ ہے، الیکشن جیسے اہم کیس میں تمام ججوں کی رائے شامل ہوجائے تو کیا حرج ہے۔ میزبان حامد میر نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ ہم دیکھتے تھے پہلے سیاسی جماعتوں میں بغاوت ہوا کرتی تھی لیکن اب ہماری اعلیٰ عدلیہ میں بھی بغاوت شروع ہوگئی ہے، اعلیٰ عدلیہ کے جج اپنے برادرججوں کے خلاف نہ صرف فیصلے دے رہے ہیں بلکہ ایک پوزیشن لے رہے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف دو جج کھل کر سامنے آگئے ہیں، یہ ساری صورتحال ایسے وقت میں پیدا ہوئی جب الیکشن کمیشن نے تیس اپریل کو پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیئے ہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن کیلئے اکتوبر کی تاریخ دی ہے، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کیخلاف تحریک انصاف سپریم کورٹ گئی، سپریم کورٹ نے ان کی درخواست پر ایک پانچ رکنی بنچ بنایا، اس بنچ کی پہلی سماعت ہوئی جس کے بعد دو ججوں نے پہلے سے جو کیس تھا اس میں اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، اس میں دو ججوں کی رائے سامنے آئی ہے کہ ہماری رائے میں الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ چار تین کا تھا، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، ہائیکورٹ زیرالتوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرے، عدلیہ کو مضبوط بنانے اور عوام کا اعتماد بحال رکھنے کیلئے چیف جسٹس کے ون مین پاور شو کے اختیار پر نظرثانی کرنا ضروری ہے، ون مین پاور شو کا اختیار فرسودہ اور غیرمروجہ ہے۔ انگریزی میں جو چیزیں انہوں نے لکھی ہیں وہ اس سے زیادہ سخت ہیں ان کا اردہ میں ترجمہ کرنا بہت مشکل ہے، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطابندیال کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ وہ سینئر ترین ججز کو بنچ میں کیوں نہیں بٹھاتے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملک بھارت میں اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہے، اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کو گجرات کی ایک عدالت نے سزا سنائی جس کے بعد انڈین پارلیمنٹ نے راہول گاندھی کو نااہل کردیا، اس کے بعد پاکستان اور انڈیا میں بہت سے لوگ راہول گاندھی اور عمران خان کا موازنہ کررہے ہیں، یہ موازنہ صرف اس بات پر نہیں ہورہا کہ راہول گاندھی نااہل ہوگئے تو عمران خان بھی نااہل ہوجائیں گے، یہ موازنہ دونوں کی سلپ آف ٹنگ پر بھی کیا جارہا ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ اپریل 2023ء میں آئین پاکستان کی تشکیل کے پچاس سال پورے ہونے والے ہیں، ایسا نہ ہو کہ اگلے ماہ جب ہم آئین پاکستان کی تشکیل کے پچاس سال پورے ہونے پر کوئی خصوصی تقریبات میں خطابات فرمارہے ہوں تو کہنے کیلئے کچھ نہ ہو کہ اس پچاسویں سالگرہ پر آئین پاکستان کی اتنی توہین اتنی توہین کہ کیا کہیں۔