فلموں کے مقبول اور کام یاب اداکار یوسف خان کے کریڈٹ پر متعدد لاجواب پنجابی فلمیں موجود، مگر انہوں نے اپنے فنی کیریئر میں اُردو فلموں میں پنجابی کے مقابلے میں کم کام کیا۔ فلم ساز ہدایت کار اور مصنف ریاض شاہد کی فلم ’’غرناطہ‘‘ ان کے کیریئر کی ایک ایسی فلم ثابت ہوئی، جس میں ان کی اداکاری نے اپنے نقش چھوڑے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور گہرے ہوتے گئے۔ اس فلم کی کہانی عظیم تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کے ناول ’’شاہین‘‘سے ماخوذ تھی۔ اس تاریخی فلم کو پاکستان ٹی وی نے ڈراما سیریل ’’شاہین‘‘ کے نام سےکی تھی، جسے ناظرین نے بہت پسند کی تھی۔
11؍جون 1971ء کو کراچی کے نشاط اور لاہور کے مبارک سینما میں نمائش ہونے والی اس فلم کے پروڈیوسر ملک مشتاق احمد تھے۔ مکالمے منظرنامہ تحریر اور ڈائریکشن ریاض شاہد کی تھی۔ فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگز زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے خوب صورت سبزہ زاروں میں ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی بدر بن مغیرہ اسپین (غرناطہ) کے اس مجاہد کے گرد گھومتی ہے، جس نے ہسپانیہ کے گھنے جنگلوں اور ٹیلوں میں چھپے ہوئے سرحدی شاہینوں کی قیادت کرتے ہوئے کی، جس نے 1212 میں سام راجی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
یہ یادگار تاریخی کردار اداکار یوسف خان نے اس خوبی سے اداکیا کہ سینما کے پورے تاریخی کتابوں سے نکل کر غرناطہ کا شاہین بدربن مغیرہ جیسے حقیقت میں دیکھنے والوں کے سامنے کھڑا ہوا کردار کی اس عمدہ ادائیگیوں کی بنا پر یہ فلم اداکارہ یوسف خان کے فنی کیریئر ہوا۔ کردار کی اس عمدہ ادائیگی کی بناء پر یہ فلم اداکار یوسف خان کے فنی کیریئر کی سب بڑی اور اہم فلم قرار پائی۔ اس کہانی کا دوسرا اہم کردار ایک غدار کا تھا، جس نے مسلمان ہوتے ہوئے لالچ اور منصب کی خاطر غداری کی ایک ایسی تاریخ رقم کی، جس پر سام راجی قوتیں فخر کرتی ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے ان ہی کے اندر سے ابو داؤد جیسے سانپ کو تلاش کر لیا۔
فلم میں یہ کردار آغا طالش نے ادا یا تھا اور اس مہارت سے ادا کیا تھا کہ یہ کردار ان کے فلمی کرداروں میں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ تیسرا کردار عیسائی بادشاہ کا تھا، جسے اپنے وقت کے مقبول اداکار ادیب نے کیا تھا، جو اس قسم کے کرداروں میں بے حد پسند کئے جاتے تھے۔ مقبول اداکارہ آسیہ کے کیریئر کا آغاز اسی فلم سے ہوا تھا، جسے نگار کے الیاس رشیدی کے کہنے پر ریاض شاہد نے کاسٹ کیا تھا۔ ’’غرناطہ‘‘ریلیز ہونے میں کچھ تاخیر کا شکار ہوئی اورآسیہ کی فلم انسان اور آدمی ریلیز ہوگئی تھی۔
اس فلم میں انہوں نے ربیعہ نامی لڑکی کا کردار کیا تھا، جو ابو دائود کی بیٹی کا تھا۔ اداکارہ روزینہ نے آسیہ کی چھوٹی بہن انجیلا کاکردار کیا تھا، جو ابودائود کی عیسائی بیوی صابرہ سلطانہ کی بیٹی تھی۔ روزینہ والے کردار میں ریاض شاہد نے پہلے اداکارہ عالیہ کو کاسٹ کرنا چاہا تھا، ان کی پنجابی فلموں میں مصروفیات کی بناء پر وہ ایسا نہ کر پائے۔ پنجابی فلموں کے ایک اور مقبول اداکار اقبال حسن نے اس فلم میں کہانی کے ہیرو بدربن مغیرہ کے نائب ابو منصور کا تاریخی کردارادا کیا تھا۔
اداکار جمیل نے طبیب بشیربن حسن کاکردارادا کیا، جو ابو دائود کی بیٹی انجیلا (روزینہ) سے محبت کرتا ہے۔ انجیلا کی بڑی بہن ربیعہ (آسیہ) بدربن مغیرہ کو چاہتی ہے۔ شاہِ غرناطہ ابوالحسن کا کرداراداکا ریحان نے کیا تھا۔ ابوالحسن کے لااُبالی، عیش و عشرت کے عادی بیٹے کے کردار میں اداکار اسلم پرویز بے حد کام یاب رہے، ان کی کردار نگاری بہت عمدہ تھی۔ ابوالحسن کے برادر اور وفادار سپہ سالار کے کردار میں اداکار ساقی نے یادگار کردار نگاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ عیسائی بادشاہ کی بیوی ازابیلہ جو ملکہ ہوتی ہے۔
یہ کردار اپنے دورکی ایرانی نقش نگار والی خوب صورت اداکارہ ترانہ نے ادا کیا تھا۔ ملکہ ارابیلہ کے بھائی جان مائیکل کا کردارادا فوجی نے کیا تھا، جو فرڈی نینڈ کا نائب ہوتا ہے۔ اپنے دورکی ایک حسین اداکارہ سنتوش رسل نے اس فلم میں شاہ غرناطہ کی ملکہ اور ابو عبداللہ کی والدہ کا کردارکیا اور بہت اعلیٰ کیا تھا۔ چھم چھم، نگو، مینا چوہدری بطور رقاصائیں فلم کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے موجود تھیں۔ فلم کی کاسٹ میں اعجاز اختر، راج ملتانی، نجم اقبال اور ایم ڈی شیخ کے نام بھی شامل تھے۔
فلم کے تمام شعبہ جات کی کارکردگی سے ایک اعلیٰ معیار کی تاریخی فلم وجود میں آئی، جس کی موسیقی اور نغمات اپنے دور میں بے حد مقبول ہوئے اور ایک گانا ،جسے ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا تھا، جس کےبول تھے ’’کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا‘‘۔ اس فلم کا ایک سدابہار گیت ثابت ہوا۔ یہ مقبول گانا اداکارہ روزینہ پر فلمایا گیا تھا، فلم کے تمام نغمات کی دھنیں اے حمید نے عربی طرزِ معاشرے اور ہسپانوی کلچرل کے مطابق ترتیب دیں تھیں۔
تنویر نقوی کے بولوں میں عربی لفظوں نے میں نغمات کو بے حد مؤثر اور اثر انگیز بنا دیا تھا۔ فلم کے مکالموں میں ریاض شاہد کے لفظ اور جملوں نے کرداروں کی خاصیت اور خامیوں کو اس سحرانگیزی کے ساتھ بیان کیا کہ فلم بین ان مکالموں کی اثرانگیزی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک موقع پر فلم کا ہیرو بدربن مغیرہ غدار ابو داؤد سے یوں مخاطب ہوتا ہے’’خاموش رہو ابو داؤد، چپ رہو، زبان بند کرو، تمہارا چہرہ سب کچھ بتا چکا ہے،جو تم چھپانا چاہتے تھے، تمہارا چہرہ مسلمان کا چہرہ نہیں۔ ہسپانیہ کے مسلمانوں کے موت کا چہرہ نظرآتا ہے۔ تم نے ہماری تاریخ کے کردار میں ایک اور غدار کا اضافہ کردیا ہے۔‘‘