کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کیس تحمل سے سنیں اور معاملہ کی نزاکت سامنے رکھیں، کیا امر مانع ہے کہ سینئر جج صاحبان بنچ کا حصہ نہیں ہوتے، کن وجوہات کی بناء پر لارجر بنچ تشکیل نہیں دیا جارہا ہے.
چیف جسٹس کیوں فل کورٹ نہیں بنارہے ہیں، نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ سے متعلق بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد قانون بن جائے گا.
سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز بھی چیف جسٹس کے اختیارات ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں.
تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ سے متعلق جو قانون سازی کرنے جارہی ہے آئین کے تحت ایسا ہوسکتا ہے، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایک دفعہ دستخط ہوکر عدالتی فیصلہ جاری ہوگیا تو وہ عوامی دستاویز ہے.
فیصلہ لکھنے والے چار جج صاحبان نے رائے دی ہے کہ آرٹیکل 184/3کی اس درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہیں.
جسٹس مندوخیل نے غالباً اس وقت بحث کے تناظر میں کہا کہ عدالت خود بھی اس صورتحال پر غور کرے، اٹارنی جنرل نے فیصلہ پڑھنے کے بعد بات کی وہ دوبارہ بات بھی کرسکتے ہیں، یہ ایسی چیز نہیں جس پر آپ مٹی ڈال کر کہیں کہ آگے چلیں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ حیران کن بات ہے کہ ایک جج کسی معاملہ میں خود کو رضاکارانہ طور پر علیحدہ کرلے دوبارہ ویسا ہی مقدمہ سنے، چیف جسٹس کو عدالتی مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن کو الیکشن ملتوی کیس کا حصہ نہیں بنانا چاہئے تھا، جسٹس اعجاز الاحسن کیلئے بھی یہی بہتر تھا کہ وہ خود اس بنچ میں نہیں بیٹھتے، بنچ کی تشکیل سے متعلق بھی معاملہ عدالت میں اٹھے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان میں کبھی اسمبلیوں کے الیکشن الگ الگ نہیں ہوئے، صدر 58/2Bکے تحت قومی اسمبلی توڑتے تو الیکشن اکٹھے کرنے کیلئے صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کردی جاتی تھیں، آئین کا تقاضا ہے الیکشن کے وقت نگراں سیٹ اپ ہونا چاہئے، 1977ء کے انتخابات حکومت نے کروائے اس کی وجہ سے مارشل لاء آیا، حالانکہ اس وقت نگراں سیٹ اپ ہوتا تو نتائج اسی طرح کے ہوتے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ عدالت کو سمجھنا چاہئے کہ مفاد عامہ کا کیس اتنی عجلت میں نہیں سنا جاتا، تمام سیاسی جماعتوں کو سن کر عدالت کو فیصلہ کرنا چاہئے، اگر سیاسی جماعتوں کو نہ سنایا گیا تو بڑی ناانصافی ہوگی،آئین میں ایسی شقیں بھی ہیں جو شفاف انتخابات کا تقاضا کرتی ہیں، آرٹیکل 220کے تحت الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا ہے کہ ایگزیکٹو اتھارٹیز تعاون کررہی ہے یا نہیں کررہیں، تمام فریقین کو تسلی بخش سماعت کا موقع دینا چاہئے ورنہ فیصلے متنازع رہتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کیس تحمل سے سنیں اور معاملہ کی نزاکت سامنے رکھیں، کیا امر مانع ہے کہ سینئر جج صاحبان بنچ کا حصہ نہیں ہوتے، کن وجوہات کی بناء پر لارجر بنچ تشکیل نہیں دیا جارہا ہے، چیف جسٹس کیوں فل کورٹ نہیں بنارہے ہیں۔
سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی پر اعظم نذیر تار ڑ کا کہنا تھاکہ اگر قانون میں یہ لکھا جاتا کہ کیسوں کی سماعت اور بنچوں کی تشکیل وزیرداخلہ ،وزیرقانون اور اٹارنی جنرل پر مشتمل کمیٹی کرے گی تو یہ آزاد عدلیہ پر حملہ ہوتا، قانون کہتا ہے چیف جسٹس اور دو سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی بنچوں کی تشکیل اور کیسوں کی تقسیم سے متعلق فیصلے کرے گی، یہی کمیٹی آرٹیکل 184/3کے بے دریغ استعمال کو روکنے کیلئے پٹیشنوں کا جائزہ لے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ سوموٹو اختیار کا بے دریغ استعمال ہوا، ازخود نوٹس اور بنچ کی تشکیل پر تحفظات بیس سال سے نہیں سنے جارہے، ازخود نوٹس کیسوں میں لوگوں کی اربوں روپے کی جائیدادیں دوسروں کے حوالے کردی گئیں مگر انہیں اپیل کا حق نہیں ہے۔
نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ سے متعلق بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد قانون بن جائے گا، یہ قانون عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے تو سوال پیدا ہوگا کہ بنچ اس قانون کے تحت 184/3کا بنایا جائے یا پرانے طریقے کے تحت بنایا جائے.
سپریم کورٹ کے اندر بھی 184/3کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے، بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی فکسیشن کی بحث بہت عرصہ سے چل رہی تھی، سپریم کورٹ کے ججوں کے اکثریت اس قانون کو بری نظر سے نہیں دیکھیں گے۔
عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ نئے قانون میں ارجنٹ نوعیت کی درخواست پر مقدمہ 14دن میں فکس کرنے کی اچھی تجویز آئی ہے،سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز بھی چیف جسٹس کے اختیارات ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں، ججوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کے بجائے سپریم کورٹ خود چیف جسٹس کے اختیارات ریگولیٹ کرے.
سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک ڈرافٹ فل کورٹ میں رکھا تھا جس میں تقریباً ایسی ترامیم تجویز کی گئی تھیں ،لیکن ان کے بعد سابق چیف جسٹس گلزار احمد اور موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ میٹنگ ہی نہیں بلائی۔