اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ کے جسٹس شاہد وحید نے بھی ’ازخود نوٹس مقدمات کی سماعت کیلئے بنچ بنانے کے قواعد کی تشکیل تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کو سننے سے روکنے‘ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ جاری کردیا، جسٹس شاہد وحید نے پانچ صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ اکثریتی فیصلے میں جن معاملات پر فیصلہ دیا گیا ہے وہ عدالت کے سامنے زیر سماعت ہی نہیں تھے، فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، خصوصی یا ریگولر بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ چیف جسٹس کے بنچوں کی تشکیل کے اختیار کے اصول طے کرچکا ہے، میری احتراماً رائے ہے کہ اس بنچ کا کوئی بھی جج بنچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتا ہے تو یہ اس کا شکایت کنندہ بننے کے مترادف ہے، فاضل جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ اگر کسی جج کو اعتراض ہو تو وہ عدالتی بنچ سے الگ ہوسکتا ہے یا چیف جسٹس کو دوسرا بنچ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے، فاضل جج نے پیمرا کی جانب سے میڈیا پر ججز پر تنقید کے حوالے سے پابندی پر کہا ہے کہ یہ معاملہ بھی عدالت میں زیر سماعت ہی نہیں تھا، فاضل جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ قرآن پاک حفظ کرنے والے میڈیکل کالج میں داخلہ کے خواہشمند کو20 اضافی نمبر دینے پر اٹارنی جنرل اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) جواب جمع کرائیں، یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل خصوصی بنچ نے بدھ کو میڈیکل کالجوں میں حافظ قرآن کو اضافی بیس نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دو، ایک کے تناسب سے فیصلہ جاری کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے عوامی اہمیت کے معاملات پر ازخود نوٹس لینے اور درخواستوں کو سماعت کے لئے مقرر کرنے کے حوالے سے قواعد و ضوابط کی تشکیل تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت اس نوعیت کے تمام مقدمات کی سماعت موخر کرنے کا حکم جاری کیا تھا، تاہم جسٹس شاہد وحید نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا ۔