کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل تحریک انصاف ، سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ آئینی مسئلے کا فائنل لائن آف ڈیفنس سپریم کورٹ ہی ہے.
بنچ بنانے کے بارے میں اگر کوئی اختلاف رائے ہوا ہے تواس کاحل سپریم کورٹ خود ہی کرے گا.
وزیر مملکت برائے پٹرولیم، سینیٹرمصدق ملک نے کہا کہ اگر اس ادارے کا بھی وقارچلا جائے تو پھر معاشرے میں رہ کیا جائے گا،وائس چیئرمین، پاکستان بار کونسل ،ہارون الرشید نے کہا کہ عوام اور سارے اداروں کو اعتماد ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ قوم اور ملک کی بہتری کے لئے ہوگا۔
وکیل تحریک انصاف ، سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جو آئینی مسئلہ ہے ملک میں بہت بڑا بحران ہے سیاسی اور معاشی مسائل بھی ہیں۔یہ جو آئینی مسئلہ ہے کہ الیکشن90 دن کے اندرہونا چاہئیں اور الیکشن ہو نہیں رہی ۔
ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ کیا سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ کیا مگر اس کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان 30 اپریل سے تاریخ کوتبدیل کرکے اکتوبر میں لے گئے۔ یہ جو آئینی مسئلہ ہے اس کی فائنل لائن آف ڈیفنس سپریم کورٹ ہی ہے۔یہ ہر جج کا بنیادی حق ہے کہ وہ کسی ایشو پراتفاق کرے کسی پر نہ کرے۔بنچ بنانے کے بارے میں اگر کوئی اختلاف رائے ہوا ہے تواس کاحل سپریم کورٹ خود ہی کرے گا۔
فی الحال اہم چیز ہے کہ الیکشن کے بارے میں جو آئینی بحران ہے اس کا حل اس کا کوئی فیصلہ آجائے ۔
سپریم کورٹ اسی لئے آج دوبارہ بیٹھ رہا ہے کہ جو کیس شروع ہوا تھا اس میں اسے اگر ایک جج نکل بھی جائیں تو باقی جو جج رہ جاتے ہیں وہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔
الیکشن کے فیصلے کے علاوہ دوسرا فیصلہ بھی ضروری ہے کہ آرٹیکل184/3 کی کارروائی ہوتی ہے اس کے اوپر رولز بنیں سارے جج صاحبان بیٹھ کر اس کا کوئی حل ڈھونڈیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا یا میرا تعلق ہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کیس کو فل کورٹ سنے 9 ممبر بینچ سنے 3 ممبر بینچ سنے ۔
کوئی بھی جج سن لے فیصلہ جلد آجائے جو بھی فیصلہ ہوگا ہم مانیں گے۔جو چیز ماضی میں بند ہوجائے اس کو آپ قانون سازی کے ذریعے دوبارہ کھول نہیں سکتے یہ قانون ہے آپ اس کو اچھا قانون سمجھیں یا برا قانون سمجھیں قانو ن یہی ہے ۔اگر آپ کسی کواس طرح اجازت دیں کہ پرانے کیسز کھول دیں اور دوبارہ سے اس فورم پر چلا جائے تو وہ چونکہ غیر آئینی قانون ہوگا تو اس کو کوئی بھی چیلنج کرکے کالعدم قرار دلوا سکتا ہے۔
اگر آپ ایک شخص کو بچانے کے لئے آپ کہتے ہیں کہ آرٹیکل184 کے کیسز ہیں دوبارہ سے ان کی سماعت ہوگی اور اپیلیٹ فورم ان کو سنے گاتو لاکھوں کیس184/3 کے تحت فیصلے ہوچکے ہیں وہ قانون پھر سب پرلاگو ہوگا وہ دوبارہ کھل سکیں گے تو آپ کا عدالتی نظام ختم ہوجائے گا۔آپ کو تو پھر الگ کورٹ بنانا پڑے گاجو صرف یہی کام کرتا رہے۔
وزیر مملکت برائے پٹرولیم، سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ یہ جو بل تھا یہ90 دن کا بل تو تھا نہیں 90 بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ایک آئینی مسئلہ ہے مگر یہ جو آوازیں آپ کو سنائی دے رہی ہیں اس کا اس سے تو کوئی تعلق نہیں ہے 184/3 کا جو دائرہ کار ہے اور بینچ کیسے بنیں گے ۔ بینچ میں کس کو ہونا چاہئے اور بینچ کتنا بڑاہونا چاہئے اس کا اس90 دن سے تعلق بالواسطہ ہے ۔ اصل بات کچھ اور ہے ہم تو سیاستدا ن ہیں پولورائزڈ رائے ہوتی ہے یہ جو وکلا برادری تمام باتیں کررہی ہیں تو یہ کیامسئلہ ہے یہ غیر آئینی مسئلہ ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے جو لکھا ہے وہ کیا غیر آئینی لکھا ہے وہ آئینی مسئلہ نہیں ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو ایک فیصلہ دیا ہے اس کا آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔آج جو ایک جسٹس نے اپنے آپ کو بینچ سے ہٹا لیا ہے اس کا بھی آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ماسوا اس کیس کے جو ایک رخ سے پیش کیا جارہا ہے باقی تمام چیزوں کا آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے بس اسی کا آئین سے تعلق ہے۔آپ سیاستدانوں کی اور وکلا کی آواز چھوڑیں آپ اپنے ججوں کی آواز سن لیں ۔
عوام کیا کریں کوئی بحران تو ہے کوئی مسئلہ تو ہے جو بڑا گہرا ہے اتنا سادہ نہیں ہے جتنا اس کو فریم کیا جارہا ہے ۔اگر اس ادارے کا بھی وقارچلا جائے تو پھر معاشرے میں رہ کیا جائے گا۔