اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف دائر کی گئی پی ٹی آئی کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران بنچ کے رکن ،مسٹر جسٹس جمال خان مندوخیل کی جانب سے بھی کیس کی مزید سماعت سے معذرت کے بعد چار رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیاجانے کے بعد چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دیدیا ،جس نے دوبارہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کوئی ضابطہ اور قانون فل کورٹ بنانے کی اجازت نہیں دیتا،علاوہ ازیں سپریم کورٹ نےاز خود نوٹس سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تین رکنی بنچ کے فیصلہ کو عدالت عظمیٰ کے ہی ایک پانچ رکنی لارجر کے متفقہ فیصلہ کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد قرار دے دیا ہے، کارروائی کے دوران جج، بار کونسل ، اٹارنی جنرل ، حکومت کافل کورٹ بنانے کا مطالبہ چیف جسٹس ،جسٹس منیب کاانکار ، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن خاموش رہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ، عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل چار رکنی بنچ نے جمعہ کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آکر بات کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں بولنے سے روکدیا اور کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں،جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کی مزید سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس امین الدین خان نے کیس کی سماعت سے معذرت کی ہے ،انکے انکار کے بعد مجھے حکم نامہ کا انتظار تھا، کل مجھے عدالتی حکم نامہ کل گھر پر موصول ہواہے ،جس پر میں نے الگ سے ایک اختلافی نوٹ قلمبند کیا ہے،انہوںنے اٹارنی جنرل کو اپنااختلافی نوٹ بلند آواز میں پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی تو اٹارنی جنرل نے ان کا گزشتہ روزکی سماعت سے متعلق اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا، فاضل جج نے کہا کہ میں اس بینچ کا رکن تھا لیکن فیصلہ قلمبند کرتے وقت مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی ہے،اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ میں اس بینچ کیلئے موزوں نہیں ہوں۔ چیف جسٹس نے جسٹس جمال مندوخیل کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ بہت بہت شکریہ،ا نہوںنے وکلاء کا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بینچ کی تشکیل کا جوبھی فیصلہ ہوگا کچھ دیربعد آپ سب کو آگاہ کر دیا جائیگا،جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ میں کل بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا، شاید فیصلہ لکھواتے وقت مجھ سے مشورے کی ضرورت نہیں تھی، اللہ ہمارے ملک کیلئے خیر کرے،بعد ازاں طویل وقفہ کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے کیس کی سماعت کی تو پاکستان بارکونسل کی ایگزیکٹوکمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا ایڈوکیٹ د یگر عہدیداروں کے ہمراہ روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیاکہ پاکستان بار کونسل کا کسی کی حمایت یا مخالفت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر یہ عدالت فل کورٹ بینچ تشکیل نہیں دے سکتی تو سپریم کورٹ کافل کورٹ اجلاس منعقد کرلیں،جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، جہاں تک ججوں کے تعلقات کی بات ہے تو ہمارے آپس میں تعلقات اچھے ہیں، کل اور آج 2 ججوں نے سماعت سے معذرت کی ہے، کچھ نکات پر آپس میں گفتگو ناگزیر ہے،کچھ سیاسی معاملات سامنے آئے ہیں،جن پر میڈیا اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے تیل چھڑکا گیا ہے لیکن اسکے باوجود عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے،کچھ لوگ چند ججوںپر تنقید کر رہے ہیں اور کچھ دوسرے ججوں پر؟ ہم اس سارے معاملے کو بھی دیکھیں گے،انہوںنے حسن رضا پاشا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ منتخب ہونے کے بعد آج پہلی بار آپ عدالت میں آئے ہیں، گزارشات سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، آپ میرے چیمبر میں آکر مجھ سے ملیں، آپکا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدربھی مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، اگر معاملہ صرف بیرونی تاثرکا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات ایسا کچھ کہہ دیتے ہیں، اکثرجھوٹ بھی ہوتا ہے،لیکن عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے،آج کی سماعت کے بعد کچھ لوگوں سے ملاقاتیں کرونگا، توقع ہے کہ پیرکا سورج ہم سب کیلئے اچھی نوید لیکر طلوع ہوگا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے روسٹرم پرآکرکہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی درستگی کیلئے فریقین کو ہدایت کی تھی، عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے سیاسی درجہ حرارت کم ہونے دیں، ملک میں ہرطرف درجہ حرارت کم کرنیکی ضرورت ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ کو ہدایات لینے کیلئے کہا تھا، اس حوالے سے آپ نے کیا کیاہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے لئے کچھ وقت درکار ہے، وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہوسکتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد تاریخ دی ہے، صدرکو الیکشن کمیشن نے مکمل حالات نہیں بتائے تھے،اگر صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل کی تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبرکی تاریخ کا معاملہ ہے،انہوںنے وضاحت کی کہ یہ عدالت کسی کے لئے مشکلات پیدا کرنے کیلئے نہیں بیٹھی ہے، عدالت کو ٹھوس وجوہات بتائیں یا ایک دوسرے کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی کا چیئرمین گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے،ان اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات ہوں تو ہم بھی سماعت میں کچھ دن وقفہ کرلینگےعدالتی فیصلہ دیکھ کرآپ کہیں گے کہ بااختیارفیصلہ ہے، ہرفریق کے ہر نکتے کا فیصلے میں ذکرکرینگے ،انہوںنے کہا کہ 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں، ہم نے اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی جس پراٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کا 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو انتظامی حکم کے ذریعے نئے بینچ کی ازسرنو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، اگر میںچاہتا تو تمام ججوں کو بھی تبدیل کرسکتا تھا، اگر آپ بھی وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بناہے تویہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا ہے کہ ججوں نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ججوںکی سماعت سے معذرت پر کچھ نہیں کہا ہے، از خود نوٹس مقدمات کی سماعت روکنے والا حکم ہم جج آپس میں زیربحث لائینگے،ابھی تو آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، جج تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے ہیں، ججوں کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے، درجہ حرارت کم کرنے والے آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھادیں گے،دوران سماعت اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر اس مقدمہ کی سماعت کے لئے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں، فل کورٹ کا معاملہ میرے ذہن میں تھا، لیکن فل کورٹ کی تشکیل سے قبل کچھ عوامل کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے، مسئلہ ملک میں سکیورٹی کا بھی ہے، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یا حساس ہیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی ہے، دہشت گردی تو 90 کی دہائی سے ہے، عدالت کو بتایا گیا ہے کہ افواج بارڈرپر مصروف ہیں، عدالت کویہ بھی دیکھنا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج عدالت کی جانب سے جاری سرکلر دیکھا ہے اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، وہ بینچ سے الگ ہوچکے ہیں، پہلے آپ سیاسی جماعتوں کا موقف سن لیں،میں بعد میں دلائل دوں گا،آپ کو ملک کے معاشی حالات سے آگاہ کروں گا، معاملہ 20 ارب روپے کا نہیں؟ پوری معیشت کا ہے؟، 30 جون تک شرح سود 22 فیصد تک جاسکتی ہے، شرح سود بڑھنے سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پرہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد بھی یکم مارچ کا عدالتی حکمنامہ ہء ہے، 9 رکنی بینچ کے 2 اراکین نے رضاکارانہ طور پر بینچ سے علیحدگی اختیار کی تھی،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ کوکس نے کہا ہے کہ 2 جج بینچ سے علیحدہ ہوئے تھے؟ عدالت کا 27 فروری کا حکمنامہ پڑھیں، اس میں کہاں لکھا ہے؟ آپ سکیورٹی اور فنڈزپر بات کریں،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے؟ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے؟ اگر 20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا؟ 1500 ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہوگا؟ الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا عدالت اس موقع پر فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا قبول کریگی؟ تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو وقت درکار ہے تو فراہم کردینگے، 3 دن تک عدالت نے مکمل سماعت کی ہے، جو قیمتی وقت گزر چکا ہے مزید جج شامل کرنے سے وقت ضائع ہوگا، نئے ججوں کو کیس شروع سے سننے اور سمجھنے میں وقت لگے گا،ا لیکشن کمیشن کے وکیل نے جو اعداد و شمار بتائے ہیں ہم حکومت سے انکی تصدیق چاہتے تھے،دوران سماعت جسٹس منیب اخترنے کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد واضح ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر مقدمات کی 2 سے زیادہ رکن ججوں پر مشتمل بینچ سماعت کریگا ،جسٹس منیب اخترنے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے، لیکن اگر حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تویہ انتہائی سنگین الزام ہے۔