• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار کروڑ روپے کی لاگت سے اسلام آباد اور لاہور کی طرز پر قائم کیے گئے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت نواب شاہ شہر کو محفوظ قرار دیا گیا تھا اور پولیس کی جانب سے یہ دعوے کیے گئے تھے کہ یہاں پراب اضافی نفری کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ کیمرے اب خود محافظ کا کردار ادا کریں گے۔ اس سلسلے میں سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت شہر میں چپے چپے پر یہ کیمرے لگائے گئے، بلکہ اس سلسلے میں شہریوں سے بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اس سسٹم میں اپنے کیمرے بھی شامل کریں، تاکہ کوئی گلی محلہ کوئی شاہراہ ایسی نہ بچے، جہاں پر یہ سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہوں اور نہ صرف دن بلکہ رات میں بھی کیمرے کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی ہو، اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ یہ سیف سٹی پروجیکٹ سرکاری خرچ پر نہیں، بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی جیب سے خرچ کرکے یہ پروجیکٹ شہریوں کو تحفے میں دیا اور اس سلسلے میں ممبر صوبائی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنماء حاجی علی حسن زرداری نے اس سیف سٹی پروجیکٹ کا ایم این اے آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی لیڈیز ونگ پاکستان کی صدر و ایم پی اے فریال تالپور کی مصروفیات کے باعث نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے افتتاح کیا۔ 

سیف سٹی پروجیکٹ کے سی سی ٹی وی کیمروں کے علاوہ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کے مطابق پولیس مددگار 15,کو بھی فعال کیا گیا اور شہر میں دو سو جوانوں کی ڈیوٹی لگائی گئی جو کہ کسی بھی جگہ پر جرم ہونے کی صورت میں پانچ منٹ کے نوٹس پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم اس ساری تگ و دو کے باوجود جرائم پیشہ افراد شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس کی مثال دو ون ٹو فائیو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد کی ہے، جو کہ پولیس کو جل دے کر کارروائیاں کر رہے ہیں اور اس وقت تک ان دو موٹر سائیکل سواروں کے ہاتھوں لٹنے والے افراد لاکھوں روپے سے محروم ہوچکے ہیں۔ 

اس سلسلے میں پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ روز پرانا نوابشاہ کے ایک شہری مقامی بینک سے آٹھ لاکھ روپے لے کر نکلے، تو انہیں گھیر لیا گیا اور اس کے بعد ان سے رقم چھین کر دو موٹر سائیکل سوار ڈاکو فرار ہوگئے۔ اس سے قبل انہیں دو موٹر سائیکل سواروں نے موہنی بازار میں ایک وکیل کو اس وقت گھیر لیا، جب وہ بینک سے 30 لاکھ روپے لے کر گھر جا رہے تھے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ مصروف ترین شاہ راہ پر ڈاکوؤں نے انہیں سرعام زدوکوب کیا اور اس کے بعد گاڑی میں رکھے 30 لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہو گئے۔ تاہم اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی طرح کے دو موٹر سائیکل سوار چار ڈاکوؤں نے محمدی ٹاون میں لگاتار کئی وارداتیں کیں، جب کہ مقامی بینک سے پندرہ لاکھ روپے نکلوا کر سکرنڈ روڈ پر واقع اپنے گاؤں جانے والے مکسی برادری کے چار کار سواروں کو روک لیا اور اس کے بعد ان سے رقم لوٹ کر باآسانی فرار ہوگئے۔ 

تاہم ڈاکوؤں کی ان کارروائیوں کے الرغم پولیس کی جانب سے کام یابی کے دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں گزشتہ روز پولیس کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا کہ مقامی وکیل منور جتوئی سے تیس لاکھ روپےلوٹ کر فرار ہونے والے چار ڈاکوؤں میں سے دو کو گرفتار کر کے ان سے کچھ رقم برآمد کی گئی، جب کہ بقیہ دو ڈاکوؤں اور لوٹی گئی رقم کی برآمدگی کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ 

ادھر اس سلسلے میں شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر چوراہے پر پولیس نفری اور سی سی ٹی وی کیمرا کی موجودگی کے باوجود اس طرح موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں کی کاروائیاں تشویش کا باعث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کی نفری میں موجود کالی بھیڑیں اس کارروائی میں سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔ اس لیے کہ اکثر بینکوں سے رقم نکلوا کر جانے والے افراد سے لوٹ مارکی وارداتیں ہوئی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بینکوں کے اندر کس طرح ڈاکوؤں کو اطلاع مل جاتی ہے کہ کوئی شخص اتنی رقم لے کر نکل رہا ہے۔

اس سلسلے میں بینک انتظامیہ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ موبائل فون کی سروس کو بینک کے اندر استعمال کرنے کی اجازت نہ دے اور اس کے علاوہ یہ کہ جو افراد رقم نکلوا رہے ہیں یا بینک میں موجود ہیں، اس کی فوٹیج کی پولیس کو فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ واردات کی صورت میں ان افراد کو تفتیش میں لاکر اصل مجرموں تک پہنچا جا سکے، جب کہ دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی بینکوں کے اندر جو سی سی ٹی وی کیمرہ لگے ہیں، ان کی کارکردگی انتہائی ناقص اور رزلٹ زیرو ہے اور ان ہی سی سی ٹی وی کیمرا کے پرنٹ اور اسکرین پر براہ راست دیکھنے سے مطلوبہ شخص کے چہرہ کو اور وہاں پر جو لوگ موجود ہیں، ان کے کپڑے تک شناخت نہیں کیے جاسکتے کہ کس رنگ کے پہنے ہوئے ہیں۔ 

جب کہ شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بینکوں میں موجود عملے کی بھی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے اور ان کا بیک گراؤنڈ معلوم کیا جانا چاہیے کہ یہ لوگ کہیں کسی جُرم میں یا کسی مجرم کے سہولت کارتو نہیں، کیوں کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ بینک سے ایک شخص رقم لے کر نکلے اور اس کے پیچھے ڈاکو لگیں اور اس کو راستے میں لُوٹ لیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بینک میں موجود کسی فرد نے مخبری کی ہوتی ہے اور اس کے بعد ڈاکوؤں کا یہ گروہ بہ آسانی اس تک پہنچ کر لوٹ مار کر کے اپنے ٹھکانے پر بحفاظت پہنچ جاتے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید