عریشہ فاروق
پتا نہیں کیوں ہر خاتون گلے شکوے کرتی نظر آتی ہے، جس سے بات کرو صدا کی پریشان دکھائی دیتی ہے۔ ہر بات کا یہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ میں، زندگی سے تنگ آگئی ہوں، مایوس ہو گئی ہوں خود سے اپنی زندگی سے۔یہ سوال اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ ہماری زندگی ہمارے لیے اہم ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر خاتون اداس اور پریشان ہے۔ انسان کو بنانے والے نے اس کی طاقت سے زیادہ اسے دکھ تکلیف نہ دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا بندہ کمزور ہے اور وہ کبھی اس کی طاقت سے زیادہ اسے دکھ نہیں دیتا۔
کل کے انسان کی نسبت آج کی خواتین زیادہ پریشان اور رنجیدہ دکھائی دیتی ہیں۔ کل ہمارے پاس اگر اتنے وسائل نہیں تھے تو اتنے مسائل بھی نہیں تھے۔ اُس وقت کی خواتین آج کی خواتین سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود ہم سے زیادہ خوش اور مطمئن نظر آتی تھیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہماری زیادہ تر پریشانی کی وجہ بھی ہم خود ہیں۔
آج ہر شخص ترقی کی دوڑ میں اس قدر گم ہو گیا ہے کہ اس کے پاس خوش ہونے کا وقت ہی نہیں بچا۔ ہم نے پیسے کو اپنی خوشی سمجھ لیا ہے اور یہی سوچ کرہم دن رات کاغذ کے ٹکڑوں کے پیچھے ایسے بھاگ رہے ہیں کی خود کو بھی بھلا بیٹھے ہیں، یہی وجہ ہے کے ہم خوشی کی نعمت سے محروم ہیں۔ آج جو کچھ ہمارے آپس ہے اگر اُس پر شکر کرلیں تو یہ بات بھی ہمارے لیے خوشی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ہم جو حاصل نہیں کرسکیں اسے چھوڑ کر جو حاصل ہے اس پر غور کریں تو یقیناً یہ بات بھی ہمارے لیے باعث اطمینان ہو گی۔ اس بات سے انکار نہیں کہ زندگی میں غم نہیں آتے، مگر بس ہم ان کا رونا روتے روتے خوشیوں کے مواقع بھی کھو دیتے ہیں۔ اگر کچھ غلط ہوا ہے تو کچھ اچھا بھی ہوگا، جس طر ح ہم چھوٹی چھوٹی پر یشانیوں کو مناتے ہیں اگر خوشیوں کو بھی منائیں تو پریشانیوں کے لمحے ہمیں نظر ہی نہیں آئیں گے۔