اسلام آباد (فاروق اقدس/ جائزہ رپورٹ) سابق امریکی صدر اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان جن کو سیاست میں آنے کے بعد اپنے اپنے ملکوں میں سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
دونوں شخصیات میں رویوں اور مزاج کی کئی قدرِ مشترک ہیں اور اب اقتدار سے محرومی کے بعد مشکلات میں بھی کم وبیش ایک جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
اور اب دونوں کے درمیان ان رویوں اور ہم آہنگی کا تذکرہ غیر ملکی اور بالخصوص امریکی میڈیا میں ان کے نقاد بعض امریکی تجزیہ نگار اس حوالے سے دونوں شخصیات کے درمیان ’’مماثلت‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سارے معاملات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ ایک درجے میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان سے مختلف نہیں ہے کہ اس وقت عمران خان کو ان کی نجی زندگی سے لیکر سرکاری اہلکاروں کو دھمکانے تک جن مقدمات کا سامنا ہے ان میں انہیں مختلف سطحوں کی عدالتوں کی جانب سے غیر معمولی رعایت فراہم ہوتی نظر آرہی ہے۔
عمران خان جوش خطابات میں نہ صرف سیاسی مخالفین ہی کو نہیں لپیٹتے بلکہ ان کا نشانہ سابق اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ بھی ہوتی ہے۔
پھر یہ بھی سوئے اتفاق ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں ہی کی طرح عمران خان کے حمایتی بھی اپنے سیاسی مخالفین سے کسی معاملے میں رو رعایت کے قائل نہیں اور اس کیلئے قومی وقار اور معاشرتی روایت دونوں کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے مابین دونوں کے عرصہ اقتدار کے دوران گاڑھی چھنتی تھی جس کی وجہ سے بھی دونوں میں کئی قدرِ مشترک تھیں اور آج جب دونوں سابق ہوچکے ہیں تو دونوں کو ہی کو عدالتوں اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔
پھر حیرت انگیز طور پر اپنے دور حکومت میں دونوں کو ہی ’’توشہ خانہ‘‘ سے تحائف حاصل کرنے میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے الزامات کا سامنا ہے اور اب قابل ذکر مماثلت یہ ہے کہ عمران خان کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اپنی گرفتاری کا خدشہ ہے اور عمران خان کی طرز پر ہی اپنے حامیوں کو گرفتاری کا عندیہ دیتے ہوئے انہیں احتجاج کیلئے کہہ رہے ہیں۔
دونوں سابق سربراہان کے درمیان اس ہم آہنگی اور مماثلت کا تذکرہ پاکستان کے میڈیا میں تو ہو ہی رہا ہے اور اب ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان مماثلت کی عکاسی اس کارٹون میں بھی واضح ہے۔