اسلام آباد ( نمائندہ جنگ/ صالح ظافر/صباح نیوز )صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا جس میں انہوں نے قراردیا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہےجبکہ وزیر اعطم نےکہاہے کہ صدر مملکت کا پی ٹی آئی کے کارکن کے طور پر کام کرنا صدارتی منصب کی توہین ہے، صدر نے عمران کو آئن پر فوقیت دے کر منصب کا تقاضا پورا نہیں کیا،بل مشترکہ اجلاس میں منظورکرایاجائیگا۔حکومت نے اس ہفتے صدر سے بل کی فوری منظوری کی استدعا کی تھی، یہ بل 20؍ اپریل کو ازخود ایکٹ بن جائے گا۔دوسری جانب صدر ڈاکٹر کے انکار کے بعد بل کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری لی جائیگی ،ایوان صدر میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے بل نظرثانی کیلئے واپس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے میرے خیال میں بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پورا کرنے کیلئے دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے،آئین سپریم کورٹ کو اپیلی ، ایڈوائزری ، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین ، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنیکا طریقہ فراہم کرنا ہے یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے ؟،تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی،آئین ایک اعلیٰ قانون ہے قوانین کا باپ ہے آئین عام قانون نہیں بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے، آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے صدر نے کہا کہ آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی،سپریم کورٹ رولز 1980 پر 1980 سے عملدرآمد کیا جارہاہے،جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی ، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے،ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے،صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے،آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کاروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے،آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں،آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں ،عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کیلئے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا، پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے،آرٹیکل 142اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے،فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔