اسلام آباد(ایجنسیاں)سپریم کورٹ کے سینئرجج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عدلیہ آئین کی محافظ ہیں‘ سب نے آئین کے دفاع اورتحفظ کاحلف لیاہے‘ اپنے اوراپنے ادارے کی طرف سے کہناچاہتاہوں کہ ہم آئین اور سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں‘ اللہ کے سایہ کے بعد آئین کی کتاب کاسایہ ہمارے سروں پر ہے اور یہ ہماری پہچان ہے‘ہمارا اور آپ کا یعنی پارلیمان کا واحد مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہونا چاہئے‘ججز تقریر نہیں فیصلے کرتے ہیں ‘اگر مولوی تمیزالدین کیس میں ججز آئین ساز اسمبلی کو بحال کردیتے توکیاملک دوٹکڑے ہوتا؟اگر مولوی تمیز الدین کو وفاقی عدالت سے انصاف مل جاتا تو کیا ملک دولخت ہوتا؟ َہم اتنی دشمن سے نفرت نہیں کرتے جتنی ایک دوسرے سے کرتے ہیں‘ غیرمسلموں کیلئےاقلیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے، وہ برابر کے شہری ہیں اور ان کا بہت بڑا حصہ ہے‘آپ سب نے اور میں نے بھی یہ حلف لیا ہے کہ ہم ہر قیمت پر آئین کا تحفظ اور دفاع کریں گے، اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو آپ مجھ پر ہر قسم کی تنقید کرسکتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کل کو آپ میں سے کوئی یہ کہے کہ ہم نے آپ کو بلایا اور آپ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔ہو سکتا ہے یہاں بیٹھے کچھ لوگوں کا کیس کل میرے پاس آئے، فیصلہ ان کے حق میں نہ ہو تو شاید وہ مجھ پر بھی تنقید کریں ۔پیرکو آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پرقومی اسمبلی ہال میں منعقدہ دستور کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہناتھاکہ میں یہاں کوئی سیاسی تقریر کرنے حاضر نہیں ہوا بلکہ میں اپنے اور اپنے ادارے کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں‘ہمیں آئین کی اہمیت کو پہچاننا اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ایوان کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ہم پر تبصرے اور تنقید کرسکتے ہیں، ہم نے تنقید سنی بھی ہے‘ہمارا کام یہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق جلد فیصلے کریں، آپ کا کام ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں آج بہت سی سیاسی باتیں بھی ہوگئیں جبکہ میں نے آنے سے پہلے پوچھا تھا کہ یہاں کوئی سیاسی باتیں تو نہیں ہوں گی، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں یہاں ہونے والی تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آپ سب کے لیے ایک سوال چھوڑ رہا ہوں کہ اگرہم مولوی تمیز الدین کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو کیا یہ ملک دو ٹکڑے ہوتا ؟جب لوگ ووٹ اور آئین کا مطلب سمجھ جائیں گے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ اس ریاست کی لگام ہمارے ہاتھ میں ہے۔میں اپنے ادارے کی جانب سے کہنا چاہوں گا کہ ہم بھی آئین کے محافظ ہیں۔