• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باجوہ میرے معترف تو ان سے پوچھیں، عمران نفسیاتی بیمار، میں ان کی طرح یوٹرن نہیں لیتا، حسین حقانی

کراچی (ٹی وی رپورٹ)امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ باجوہ میرے معترف ہیں تو ان سے پوچھیں، عمران خان نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں۔

عمران خان نے 26 سال میں اپنا امریکا مخالف امیج بنایا ،میرا ان 174 ارکان اسمبلی میں سے کسی سے رابطہ نہیں تھا،امریکا میں لابیز کا کردار الگ ہے اور صحافی ، اسکالر کا کردار الگ ہے ،امریکی تھینک ٹینکس کے ساتھ بہت سارے لوگ ریسرچ کیلئےرابطہ کرتے ہیں۔

میرے موقف کی وجہ سے عمران خان مجھے غدار تک کہتے رہے،میں اس طرح سے یو ٹرن نہیں لیتاجس طرح سے خان صاحب لیتے ہیں ، مسئلہ یہ نہیں کہ کس سے کس کی ملاقات ہوئی ، امریکا کو عمران خان کے امیج کیلئےمیری ضرورت نہیں،کانگریس مین محتاط بیان دے رہے ہیں، ان کی انتخابی مہم کیلئے امریکا میں عمران کے حامی چندہ دیتے ہیں،باجوہ سے میرے تعلق کا عمران نے ثبوت نہیں دیا، شیریں مزاری کو اپنے گھر میں کیڑے مکوڑوں کی موجودگی بھی امریکی سازش دکھتی ہے۔

میرے کام کا اس سے تعلق نہیں کہ کسی حق یا مخالفت میں لابنگ کروں ، میری چار کتابیں ہیں جو دنیا بھر میں یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہیں، میرا موقف آئین کی بالادستی کے حق میں ہے میں یوٹرن نہیں لیتا، وہ تو کہتے تھے روس تیل دے رہا ہے آج تک تو ایک قطرہ تیل نہ آیا، آپ عدم اعتماد کا ووٹ تسلیم کرلیں ، مجھے کیوں اس میں گھسیٹ رہے ہیں،امریکا کا پاکستان میں اگر کوئی مفاد ہوگا تو وہ فرد کے ساتھ نہیں ہوگا،کوئی مجھےمضمون لکھنےکی ادائیگی کرتا ہے تو اسلیےاپنی علمی معلومات اس سےشیئرکروں۔

عمران خان کو 174 ارکان اسمبلی نے ووٹ کی طاقت سے ہٹایا ، یہ احمقانہ بات ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر میں نے ان کی حکومت ختم کرائی، میرے موقف کی وجہ سے عمران خان مجھے غدار تک کہتے رہے، عمران خان نے 26 سال میں اپنا امریکا مخالف امیج بنایا،امریکی تھینک ٹینکس کے ساتھ بہت سارے لوگ ریسرچ کیلئےرابطہ کرتے ہیں،شاہزیب خانزادہ کے سوال عمران خان کی رائے ہے وہ اس کو کافی دفعہ دہرا چکے ہیں کہ جنرل باجوہ نے آپ کے ذریعے ان کی حکومت گرائی ۔ 

کیوں کہ ایک فرم ہائرکی گئی جو کہ رابرٹ گرینیرسابق اسٹیشن چیف سی آئی اے کے انہوں نے آپ کو ہائر کیاامریکا کو یہ بتانے کے لئے کہ عمران خان بہت اینٹی امریکا ہے۔ 

جنرل باجوہ بہت پرو امریکا ہیں آپ نے یہ بات وہاں تک پہنچائی پھروہاں سے پاکستان آئی اور پھر ان کی حکومت گرائی گئی آپ مرکزی کردار ہیں ان کی حکومت گرانے کا؟ حسین حقانی…ماہرین نفسیات کہتے ہیں ایک مرض ہوتا ہے جس کو کہا جاتا ہے paranoid delusionsاس میں آدمی بہت تصوراتی باتیں دیکھتا رہتا ہے۔ابھی تک انہوں نے کوئی ثبوت نہیں دیا اس بات کاکہ میرا جنرل باجوہ سے کوئی تعلق تھا۔ میرا کوئی بیس بائیس سال سے یہ موقف ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو سیاست میں گھسیٹنے سے فوج کو بھی نقصان ہوتا ہے سیاست کو بھی نقصان ہوتا ہے اور ملک کو بھی نقصان ہوتا ہے۔میں نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں میں نے اس موضوع پر دنیا بھر میں تقریریں کی ہیں۔

 اسی کی وجہ سے دنیا میں میری تھوڑی بہت جو عزت ہے وہ اسی وجہ سے ہے۔عمران خان اور ان کے ساتھی ا س موقف کی وجہ سے مجھے غدار تک کہتے رہے ہیں۔ 

اب ان کی طرف سے یہ کہنا کہ اسی فوج جس کی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے پر میں تنقید کرتا رہا ہوں ان کے ساتھ مل گیا ہوں ۔ یا ان کے ساتھ مل کر میں نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیایہ بالکل ہی ایک احمقانہ بات ہے ۔ میں اس طرح سے یو ٹرن نہیں لیتاجس طرح سے خان صاحب لیتے ہیں ۔ رہ گیا سوال گرینیر صاحب کا یا کسی اور کا تو آپ کو پتہ ہوگا کہ امریکامیں جو لوگ تھنک ٹینکس میں کام کرتے ہیں۔

ان سے بہت سارے لوگ ریسرچ کے لئے رابطہ کرتے ہیں کہ آپ جس ایریا کے ماہر ہیں اس کے لئے ہمارے لئے اس موضوع پر ریسرچ کرکے ہمیں فراہم کردیں اور اس کی ادائیگیاں ہوتی ہیں۔

کوئی ادائیگی مجھے لابنگ کے لئے کوئی نہیں ہوئی نہ میں لابیسٹ ہوں ۔ امریکا کا جو قانون ہے اس کے اندر بہت واضح طو ر پر ایک اسکالرکا کردار الگ ہے ۔ صحافی کا کردار الگ ہے اور لابیسٹ کا کردار الگ ہے ۔

 رہ گیا معاملہ جنرل باجوہ کا تومیری تحریریں پڑھ لیجئے میں ہمیشہ جنرل باجوہ کے موقف پر تنقید کی ۔ ان کی اس سوچ پر تنقید کی جس کے نتیجے میں وہ ون پیج سرکار پیداہوئی جس کو ہٹایا گیا۔

عمران خان صاحب کو174 اراکین قومی اسمبلی کے ووٹ سے ہٹایا گیاان میں سے کسی سے میرا رابطہ نہیں تھا۔رہ گیا یہ سوال کہ امریکا کومیں نے عمران خان صاحب کے خلاف کردیا۔ توعمران خان صاحب اصل میں جو گزشتہ رات کی اپنی تقریر ہوتی ہے وہ آج صبح بھول جاتے ہیں۔ 

ان کو یہ یاد نہیں کہ انہوں نے گزشتہ25،26 سال میں اپنی ایک امیج بنائی ہے ہے پوری دنیا میں امریکا مخالف ہونے کی۔امریکیوں کو حسین حقانی کی ضرورت نہیں ہے انہیں یہ قائل کرنے کی کہ عمران خان امریکا مخالف ہے۔اگر عمران خان صاحب کے پاس کوئی ثبو ت ہے کہ میں نے کوئی بھی کردار پاکستان کی سیاست میں ادا کیا ہے ۔ حالانکہ میں اس سیاست سے بہت دور ہوں پاکستان میں میں رہتا نہیں کئی سال سے میں آیا نہیں۔

آج11 سال کے بعد پہلی بارکسی پاکستانی ٹیلی ویژن چینل پر آرہا ہوں۔ایسی صورتحال میں اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو براہ کرم وہ پیش کردیں۔


سازشی نظریے کے بار بار بیان کرنے سے وہ حقیقت نہیں بن جاتے ۔ ان کے جو پیروکار ہیں وہ ان کی پرستش کرتے ہیں ان کی ہر بات کو مان جاتے ہیں ان کے ہر یو ٹرن کو صحیح سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن باقی دنیا اسی وجہ سے ان کی عزت نہیں کرتی کہ وہ جھوٹے الزامات لگاتے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ شاہ زیب خانزادہ …جو ثبوت ہے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میری ہی حکومت کے ذریعے ایک معاہدہ کیا گیا امریکا کی لابنگ فرم ہے۔ جو کہ جنرل باجوہ نے کرایاافتخار درانی سے ۔


 افتخار درانی کہتے ہیں اس وقت سیم پیج چل رہا تھاتو کابینہ سے منظوری نہیں تھی میں نے دستخط کردیئے۔جو آپ کو ادائیگی ہوئی ہے 30 ہزار ڈالرز کی تین قسطوں میں اس کا جو فارن پرنسپل لکھا ہواہے وہ واقعی افتخاررحمٰن درانی لکھے ہوئے ہیں۔وہ ادائیگی آپ کو افتخار درانی کی طرف سے ہوئی ہے مقصد اس میں ریسرچ لکھا ہوا ہے تو کیا ریسرچ ہے۔ حسین حقانی…ان کی معصومیت پر مجھے حیرت ہوتی ہے اس بات پربھی حیرت ہوتی ہے کہ اتنے بھولے ہیں ۔ 

انہوں نے ہی ادائیگی کردی ان ہی کی وجہ سے ان ہی کے خلاف لابنگ ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریسرچ لابنگ نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ اگر 30 ہزار ڈالرمیں حکومتوں کے تختے الٹے جاتے۔ تو میں آپ کے توسط سے کہتا ہوں جس نے جس حکومت کا تختہ الٹوانا ہے 30،30 ہزار ڈالر بھیج دے ہم اس کے لئے بھی کوشش کرکے دیکھ لیں گے۔مذاق ہے یہ کوئی اس کو سنجیدہ نہ لے لے ۔ بات یہ ہے کہ گرینیر صاحب وہ کئی سال پہلے پاکستان میں رہ چکے تھے اس کے بعد یو میرے علم میں نہیں تھا کہ ان کا کلائنٹ کون ہے ۔ 



اگر افتخار درانی ان کے کلائنٹ تھے تومجھے اگر اس کا علم ہوتا تومیں یقیناً ان سے کہتا کہ میں آپ کے کلائنٹ کی خدمت کرنے میں بالکل ملوث نہیں ہونا چاہتا۔لیکن افتخار درانی بھی اگر شامل تھے تو یہ بات جنرل باجوہ تک کہاں پہنچ گئی۔ 

ریسر چ میری جو ہے وہ تو پاکستان کی سیاست کے بارے میں ہے ۔ ان کو یہ بتانا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں آج کل کون اہم کردار ہیں کس کس پارٹی کا کیا موقف ہے کون کیا کیا کررہا ہے۔یہ ان کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے تھاتاکہ وہ پاکستان کی سیاست کے حوالے سے کچھ جان سکیں کیوں کہ ان سے کہا جارہا تھا کہ امریکا میں جو بھی ان کا کلائنٹ تھااس کے لئے کچھ کام کریں۔گرینیر صاحب بھی لابیسٹ تو نہیں ہیں وہ تو ایک سابق سرکاری اہلکار ہیں۔ان کی رسائی صرف اس ادارے تک ہوسکتی ہے جس میں وہ پہلے کبھی کام کرتے تھے ۔ انہوں نے بھی لابنگ کا کوئی دعویٰ نہیں کیاجنرل باجوہ سے ان کا بھی کوئی تعلق بھی وہ کہیں ثابت نہیں کرسکے۔مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ دو دو چار ملاکر اٹھائیس کیسے بنا رہے ہیں۔ 

شاہ زیب خانزادہ …شیری مزاری صاحبہ کہتی ہیں کہ ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ نے یہ کہاکہ ہمیں ملک سے باہرپاکستان کے بہت سارے اکیڈمکس ہیں ان کو استعمال کرنا چاہئے۔پھر آپ کا نام لیاوہ کہتے ہیں بڑے حیران ہوئے حسین حقانی کا تو فوج کے ساتھ ماضی رہا ہے اس میں کیسے حسین حقانی کا نام لیا جارہا ہے ۔

 دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ آپ کے اور ڈونلڈ لو کے تعلقات بڑے اچھے ہیں بڑی اچھی دوستی ہے۔عمران خان کابنیادی الزام ہی ڈونلڈ لو پر ہے جنرل باجوہ کا آپ کے بارے میں کہنا کہ آپ کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ پھر ڈونلڈ لو سے آپ کی دوستی ہوناڈونلڈ لو کاایک ایسا یہاں پرپاکستان کے سفیر سے مل کر ایسی باتیں کرنا جس کے لئے انہوں نے کہا تھا کہ ڈی مارش کرنا چاہئے بڑی ان ڈپلومیٹک لینگویج استعمال کی ہے

 حسین حقانی…پہلی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ لو اکیلے نہیں ہیں میں نے کئی سال میں امریکا میں بہت گڈ ول کمائی ہے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہیں ۔ میں نے وہ کام نہیں کیاکہ کسی کو ٹرک پر چڑھ کر یا کنٹینر پر چڑھ کرگالیاں دوں اور اس کے بعد اسی سے ملنے پہنچ جاؤں۔کہوں اس کوبھول جاؤ اور میرے ساتھ دوستی کرلواس وجہ سے میری ایک عزت ہے۔وہ کئی امریکی اہلکاروں کے ساتھ ہے کئی امریکی اعلیٰ حکام کے ساتھ ہے ہر پارٹی کے سینیٹروں اور کانگریس مینوں کے ساتھ ہے۔لیکن یہ ایک اسکالر کے طور پر ہے لابیسٹ کے طور پر نہیں وہ میری رائے کا احترام کرتے ہیں وہ رائے وہی ہے جو میں مضامین میں لکھتا ہوں جو میں ٹیلی ویژن پر کہتا ہوں ۔ جس میں کوئی اخفا کی بات نہیں ہوتی خفیہ بات نہیں ہوتی۔اب یہ جو قلابیں ملانا ہے کہ جی ڈونلڈ لو سے دوستی ہے اس لئے یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔ 

یہ ایسا ہی ہے ویسے تو اللہ کرے عمران خان صاحب سچ بولیں اور کلام پاک پر ہاتھ رکھ کر بات کریں ۔ ایک زمانے میں ان کی میرے ساتھ بھی ان کی دوستی تھی اور ان کا بھی مجھ سے ملنا جلنا تھا۔ اگر کسی سے دوستی کی وجہ سے ایک سازشی نظریہ پیش کیا جائے گاتو یہ تو صریحاً نا انصافی بھی ہے اور جھوٹ بھی ہے۔جہاں تک شیریں مزاری صاحبہ کا تعلق ہے ان کو تو اپنے گھر کے جو مختلف قسم کے مچھر اور کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ ان میں بھی امریکا کا ہاتھ نظر آتا ہے اسرائیل کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

وہ ایک سازشی نظریوں کی بالکل قیدی ہیں۔میں تو سیدھی سی بات کرتا ہوں کہ اگر ڈونلڈ لو نے میرے کہنے سے اتنا کچھ کرلیا توخان صاحب میرا فون نمبر آپ سے پوچھ لیں مجھ سے رابطہ کریں ۔ اپنا موقف بیان کریں شاید میں قائل ہوجاؤں شاید میں ان ہی کے کام آجاؤں۔یہ بات کرنا کہ ایک آدمی جس نے کتابیں لکھی ہیں تحقیق کی ہے جو پروفیسر کے طور پر امریکا میں پڑھاتا رہا ہے ۔ جس کا ایک موقف ہے وہ موقف ہائر ہونے سے بدل جاتا ہے ۔ بیس بائیس سال کا موقف کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہوگاصرف 30 ہزار ڈالر کی وجہ سے بدل جائے گا یہ بڑی احمقانہ بات ہے۔

رہ گیا معاملہ کہ جنرل باجوہ نے یہ کیو ں کہاکہ حسین حقانی سے ہمیں رابطہ کرنا چاہئے اور ان سے بات کرنی چاہئے۔اس کا جواب جنرل باجوہ سے طلب کیا جانا چاہئے کہ وہ اور ان کا ادارہ ہی ہیں جس نے کئی برس پاکستان میں میرے خلاف لوگوں کو یہ باور کرایاکہ میری رائے کس کی طرح سے پاکستان اور پاکستان فوج دشمن رائے ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ اگر انہوں نے یہ کہا کہ حسین حقانی بہتر آدمی ہے ہمیں اس سے رابطہ کرنا چاہئے ۔ یہ تو اس بات کو تسلیم کرنا تھا کہ اب تک میرے خلاف جو باتیں کی گئیں وہ ناجائز تھیں اور غلط تھیں اس میں میری تو کوئی غلطی نہیں ہے۔رہ گیا معاملہ یہ کہ جنرل باجوہ سے کوئی ملاقات ہوئی ایشو یہ نہیں ہے کہ کس سے کس کی ملاقات ہوئی ۔ کیا میں ڈونلڈ لو سے ملتا رہا ہوں بالکل ملتا رہا ہوں آئندہ بھی ملوں گاکیا میری پاکستان سے کسی اور سے ملاقات ہوئی بہت سارے لوگوں سے ہوتی ہے۔

اہم خبریں سے مزید