اسلام آباد(رپورٹ: رانا مسعود حسین) چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹرجسٹس عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ کے چار ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزام میں سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر کردی گئی ہے،شکایت کنندہ سردار سلمان ڈوگر ایڈووکیٹ نے سوموار کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف یہ شکایت د ائر کی ہے، جس میں مذکورہ چاروں ججوں پر مس کنڈکٹ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں،شکایت کنندہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ملک میں ہونے والی حالیہ ڈیویلپمنٹ کی بناء پر سپریم کورٹ سارے تنازعات کا مرکز بن گئی ہے ،چند جج جس طرح ایک اتحادبنا کر ایک مخصوص جماعت کی فیور کررہے ہیں اس کے خلاف ایک عمومی رد عمل پیدا ہورہا ہے ،شکایت کنندہ نے الزام عائد کیا ہے کہ مذکورہ جج صاحبان نے ،ججوں کے ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل III، IV، V، VI، اور کی خلاف ورزی کاارتکاب کیا ہے ،شکایت کنندہ کے مطابق ضابطہ اخلاق کا آرٹیکل IX،اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انصاف نہ صرف ہوناچاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے،شکایت کنندہ نے الزام لگایا ہے کہ 16 فروری2023 کو سوشل میڈیا پرکچھ آڈیوز لیک ہوئی ہیں ،جن میں سے ایک میں سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہٰی "مخصوص" مقدمات کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے بنچ کے سامنے مقرر کرنے کی بات کررہے تھے ،ایک اور آڈیو میں پرویز الہٰی کو جسٹس مظاہر نقوی کے ساتھ بات کرتے ہوئے سنا گیا ہے، جس میں وہ جج صاحب کی نجی رہائش گاہ پر جانے پر اصرار کر رہے تھے جبکہ اس وقت ان کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی، بھی جسٹس نقوی کے ساتھ پہلے سے ہی موجودتھے ، اس کے بعد پرویز الہٰی نے سی سی پی او لاہور ڈوگرکے تبادلہ سے متعلق ایک مقدمہ جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بنچ کے سامنے مقرر کروانے کی بات کی ہے ،جبکہ اسی مقدمہ میں دورکنی بنچ نے چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی عدالت میں طلب کر کے ان سے صوبہ ہائے پنجاب اور خیبر پختونخواء کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کی وضاحت طلب کی تھی اور بعد ازاں اس معاملے پر از خودنوٹس کارروائی کے لئے معاملہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال بھجوایا تھا ،شکایت کنندہ کے مطابق اس کے بعد پرویز الٰہی کی خواہش پر اس حوالے سے از خود نوٹس کارروائی کی گئی، شکایت کنندہ نے الزام عائد کیا ہے کہ 21مارچ کو بھی محمد خان بھٹی کی ایک ویڈیو فوٹیج سوشل پر وائرل ہوئی تھی ، جس میں وہ ان تین ججوں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید اکبر علی نقوی پرتحریک انصاف سے متعلق مقدمات میں عدالتی بدانتظامی اور جانبداری کا الزام لگا رہے تھے ،شکایت گزار نے الزام عائد کیا ہے کہ درحقیقت یہ تینوں جج اہم سیاسی اورآئینی مقدمات میں مرضی کے بنچوں کی تشکیل اور مرضی کے فیصلے لینے کے لئے چیف جسٹس کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں،شکایت کنندہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ 23 فروری کو میاں داؤد ایڈوکیٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایت جمع کروائی ہے جس پر چیف جسٹس نے کسی بھی قسم کی کارروائی سے انکار کرتے ہوئے بغیر کسی انکوائری کے ہی انہیں بے قصور قرار دے دیا ہے ،شکایت کنندہ کے مطابق بعد ازاں چیف جسٹس نے جسٹس سید اکبر علی نقوی کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل کیا اورکھلی عدالت میں کہا ہے کہ وہ جسٹس نقوی کو بنچ میں شامل کرکے "خاموش پیغام بھیج رہے تھے،شکایت کنندہ نے الزام عائد کیا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے ، جبکہ وہ معاملہ صوبائی ہائی کورٹوں میں پہلے ہی زیر التواء تھا،شکایت کنندہ نے الزام لگایاہے کہ یہ رویہ ویڈیو اور آڈیو لیک میں لگائے گئے متعصبانہ طرز عمل کے الزامات کی عکاسی کرتا ہے ،شکایت کنندہ کے مطابق اس حوالے سے چیف جسٹس نے اپنے انتظامی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے من پسند فیصلہ کیا ہے جوکہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، شکایت کنندہ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس قاضی فائز کے ماضی کے مقدمات پر انحصار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ چیف جسٹس کوبھی سپریم جوڈیشل کی انکوائری سے استثنیٰ حاصل نہیں ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس کی بدانتظامی سے متعلق شکایت کی انکوائری کر سکتی ہے۔