• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم

رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی

شرکاء: 

زبیر طفیل (سابق صدر، ایف پی سی سی آئی)

پروفیسر ڈاکٹر سید شبیب الحسن ( وائس چانسلر، ہمدرد یونی ورسٹی)

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، بزنس ایڈمنسٹریشن، سلیم حبیب یونی ورسٹی)

ڈاکٹر ظفر ناصر(وائس چانسلر، انڈس یونی ورسٹی) 

بجلی گیس مہنگی ہے لیکن مہنگی ہونے کے باوجوبھی گیس گھروں کو میسر نہیں ۔خوراک45 فیصد مہنگی ہوگئی ، قیمتیں ماہانہ چارفیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہیں،جس طرح بجلی اور گیس مہنگی ہورہی ہےہماری انڈسٹری اتنی مہنگی قیمت کے ساتھ مال تیار کرکے عالمی مارکیٹ سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔

آئندہ کے چند ہفتوں میں ملکی صورت حال مزید خطرناک ہونے جارہی ہے سینکڑوں صنعتیں بند ہوجائیں گی، گزشتہ چار مہینے سے اسٹیٹ بینک ڈالر مناسب طریقے سے فراہم نہیں کررہا جس سے کئی صنعتیں بند ہوچکی ہیں، مئی اور جون میں بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہوجائیں گی اور ہزاروں نہیں لاکھوں افراد بے روزگار ہوجائیں گے، اسٹیٹ بینک اپنا میکنزم بنائےکہ کمرشل بینک فارغ التحصیل طلبا کو کم شر ح سود پر قرض فراہم کریں، یہ لون تین سال کے لیے بلاسود ہو تاکہ وہ اس دوران اپنے اپنے کاروبار قائم کریں۔

زبیر طفیل

کہا جارہا ہے کہ غربت بڑھ رہی ہے اور ہم نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں دےرہے،ہم نے ڈھنگ سے ترجیحات طے نہیں کی، اپنے وسائل کو درست جگہ استعمال کیا جائے تومسائل خود بہ خود حل ہوں گے دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کے پاس ہم سے زیادہ آبادی اور کم وسائل ہیں ، لیکن وہ زیادہ خوش حال ہورہے ہیں اس کی وجہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنے وسائل کا ڈھنگ سے احاطہ کیا ہے، اگر ملک ٹھیک کرنا ہے تو پہلے ترجیحات درست کریں ، جن حالات کا شکار ہیں اس میں آسانی سے ڈالر سے علیحد گی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ روس چین سمیت کچھ ممالک کا ایک بلاک بن رہا ہے اس موقع پر کچھ ہوتو ہولیکن وہ بھی بہت مشکل فیصلہ ہوگا، قرض لے کر کھانے کی عادت پڑجائے تو پھر اس سے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر شبییب الحسن

آئی ایم ایف ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر دینا چاہتا ہے ، لیکن اس کے لیے بہت سارے اسٹرکچرل ریفارمز کرنے ہیں ،چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر لینے کےلیے جو اسٹرکچرل ریفارمز کیے اس سے معیشت کو ایک سو ایک ارب ڈالرکا نقصان پہنچا ہے، صورت حال ابتر ہے پچھلے بجٹ میں مہنگائی میں گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد اضافے کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن وہ 47فیصد پر پہنچی ہوئی ہے، جب تک ملک کے ساتھ کھلواڑ رہے گا، کتنا اچھا بجٹ پیش کریں بہتر نتائج حاصل نہیں ہوں گے، کسی بھی معیشت کے چار ستون ہوتے ہیں لیگل، اکنامکل، پولیٹیکل اور ایڈمسٹریٹو، موجودہ سیاسی حالات میں چاروں نے پاکستان کو گھیر رکھا ہے، مہنگائی قابو کرنے کے لیے ہماری معیشت کے پاس حل نہیں، آئی ایم ایف سبسڈیز ختم کرنے کا کہہ رہا ہے، پنشن دینے پر اعتراض ہے، ہم بجٹ میں کیا کریں گے وہ یہ د یکھنے کے بعد پیسے دے گا، آئی ٹی انڈسٹری پر توجہ مرکوز کریں اس انڈسٹری کو زیادہ زیادہ مراعات دی جائیں، امپورٹ متبادل صنعتوں کوترقی دی جائے، گلوبل سپلائی چین کا حصہ بننا چاہیے، میرے خیال میں اگرڈیٖفالٹ کا اعلان کردیا جائے تو بہتر ہوگا پھر مجبوری میں سہی لیکن ان ایریا ز میں کام کریں گے جن سے ہم کتراتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم

پاکستان ان دنوں شدید معاشی و سیاسی بحران کا شکار ہے، ہر جانب پستی، مسائل اور نقصان دکھائی دے رہا ہے، قرضوں کی بات کریں تو وہ ریکارڈ سطح پر موجود ہے، نئے قرضوں کی امید کم ہے، روپیہ کی بےقدری یعنی ڈالر کی شرح مبادلہ بہت بلند ہے اور اس میں اضافہ ہی نظر آتا ہے، مہنگائی درست معنوں میں آسمان سے باتیں کر رہی ہے، اور تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بھی اب برداشت سے باہر ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پر قابو پانے کی کوشش جاری ہے لیکن اس کے منفی اثرات سے کاروبار مشکلات کا شکار ہے، بجٹ خسارہ بھی بلندی کے نئے نمبرز کو چھو رہا ہے، معاشی شرح نمو ایک فی صد سے بھی کم رہنے کا خدشہ ہے۔ 

دوسری طرف معیشت میں بہتری کی واحد امید آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، پاکستان نے کافی مشکل فیصلے کئے ہیں لیکن معاہدہ ہے کہ ہو کر نہیں دے رہا، ان سب کا فطری نتیجہ غربت میں تیزی سے اضافہ ہے، نئے بجٹ کی تیاری بھی ہو رہی ہے، ایسے بحرانی حالات میں بجٹ کیسے بنے گا یہ ملین ڈالر کا سوال ہے، یہ ہی جاننے کے لئے انڈس یونی ورسٹی، گلشن اقبال کیمپس میں پری بجٹ جنگ فورم "کیسا بنے گا بجٹ؟ کے موضوع پر منعقد کیا گیا، بجٹ فورم سے زبیر طفیل (سابق صدر، ایف پی سی سی آئی) پروفیسر ڈاکٹر سید شبیب الحسن ( وائس چانسلر، ہمدرد یونی ورسٹی، کراچی) پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، بزنس ایڈمنسٹریشن، سلیم حبیب یونی ورسٹی، کراچی) اور ڈاکٹر ظفر ناصر(وائس چانسلر، انڈس یونی ورسٹی) شریک گفتگو رہے، فورم کی میزبانی کے فرائض جنگ فورم کے ایڈیٹر محمد اکرم خان نے سر انجام دئیے، فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے

جنگ: موجودہ ملکی معاشی حالت آپ کی نظر میں کیسی ہے؟

ڈاکٹر ظفر ناصر: آج کل ہمارے پاس بجٹ کے علاوہ سب کچھ ہے،عوام ان حالات میں اپنی گزربسر کیسے کرر ہے یہ الفاظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، غریب کے بعد ہمارا مڈل کلاس طبقہ بھی بری طرح پریشان ہے۔بہت ساری چیزیں جمع ہوگئیں ہیں جس کی کئی وجوہات پرانی ہیں، ہم نے اپنے ملک کے ساتھ وہ انصاف نہیں کیا جو اس کا حق تھا۔ 

ڈاکٹر ظفر ناصر
ڈاکٹر ظفر ناصر

ہماری معیشت کا خاص طور پر مکمل دارومدار طبقہ اشرافیہ پر رہا انہوں نے بے انتہا فوائد حاصل کیے ہیں،لیکن اپنے فرائض سے اجتناب کیا، خاص طور پر محصولات کا نظام جو کہ کسی بھی ملک کی معیشت کو چلانے کی بنیاد ہوتا ہے وہ انتہائی فرسودہ ہے، جس کی وجہ سےغیرقانونی اور ناجائز دولت جمع کرنے کا سلسلہ بہت زیادہ ہے، آبادی کے دیگر بڑے حصے کا کردار بہت کم ہے، ہماری 40 سے 50فیصد آبادی شرح غربت سے نیچے ہے جوکہ آئندہ آنے والی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا، ہم پر جو لون ہیں وہ بہت زیادہ ہیں وہ سوبلین ڈالر سے بھی شاید زیادہ ہیں۔

مجموعی طور پر بڑی بری صورت حال ہے سمجھ میں نہیں آرہا اسے شروع کہاں سے کریں اور ختم کہاں کریں ، ہماری آمدنی کم ہے اور اخراجات بہت زیادہ ہیں کیوں کہ ہماری برآمدات درآمدات کے مقابلے مستقل کم رہی ہے جس کی وجہ سے خسارہ بڑھتا رہا ہے تو ہم اسے کیسے قابو کریں گے یہ بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس گھمبیر حالات میں جنگ فورم زبردست پلیٹ فارم ہے جہاں گفتگو کرکےشاید ہم کسی مثبت نتیجے پر پہنچیں جو ملک کے مستقبل کی حکمت عملی کے لیے کارآؑمد رہے۔

جنگ: ہمیں بجٹ بنانے میں کن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم :موجودہ جوسیاسی افراتفری ہے بقول شاعر

بنوں گا نہ جانے کن لفظوں کا پیکر،

میں کاغذ اور قلم کے درمیاں ہوں

بجٹ بناتے وقت صرف داخلی معاملات مد نظر نہیں ہوتے خارجی حالت کو بھی دیکھنا ہوتا ہے،اس وقت دنیا شدید بحران میں ہےعالمی کساد بازاری شروع ہوچکی ہے، امریکا سے لے سوئٹرزلینڈ تک فرانس لے کر جرمنی تک جہاں چلے جائیں وہ کساد بازاری کا شکار نظر آرہا ہے،دوہفتے پہلے ایک امریکی بینک دیوالیہ ہوا ہےاسی طرح کریڈٹ سوئس بینک دیوالیہ ہوا اسے یونین بینک آف سوئٹزر لینڈ نے لے لیا ہے۔ 

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم
پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم 

جرمنی کے ایک بینک کے شیئرز کی قیمتیں تیزی سے نیچے جارہی ہیں تو ایک طرف مالیاتی بحران شروع ہوچکا ہے اس کےلیے ہمیں تیار ہونا ہے، کچھ سرد جنگ شروع بھی ہورہی ہیں میری مراد روس اور یوکرین کی جنگ سے ہے، اس طرح کچھ دو طرفہ اور کثیرالجہتی معاہدوں پر دستخط ہورہے ہیں جیسا کہ چین اور روس کے درمیان ، روس اور سعودی عرب کے درمیان معاہدوں پر دستخط ہورہے ہیں، سعوری عرب دو اعشاریہ پانچ بلین بیرل تیل، ڈیزل روس سے درآمد کررہا ہے اور ترکی کو برآمد کرے گا،معاملات بہت خراب ہوتے نظر آرہے ہیں، ایشیا کا جائزہ لیں تو چین لیڈنگ رول کرتا نظر آرہا ہے اس میں پاکستان کا مثبت تعمیری کردارنظر نہیں آرہا،اپنے معیشت پر نظر ڈالیں تو پچھلا بجٹ دوہزار اکیس بائیس وہ آٹھ اعشاریہ چار ٹریلین روپے کا تھا، اگلے برس دوہزار بائیس تئیس کا بجٹ نو اعشاریہ پانچ ٹریلین روپے کا تھا۔

عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی30فیصد ہے اور یہ صورتحال جون تک برقرار رہے گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اس وقت ہمیں 47فیصد مہنگائی کا سامنا ہے، ہم آئی ایم ایف کی بائیسویں پروگرام میں چل رہے ہیں جو جولائی 2019 سے شروع ہوا تھا جو 6اعشاریہ پانچ ارب ڈالر قرض لینے کا معاہدا تھا،چار سے ساڑھے ہزار ڈالر ہم لے چکے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر دینا چاہتا ہے ، لیکن اس کے لیے بہت سارے اسٹرکچر ریفارمز کرنے ہیں، چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر لینے کے لیے ہم نے جو اسٹرکچرل ریفارمز کیے اس کے نتیجے میں ہماری معیشت کو ایک سو ایک ارب ڈالرکا نقصان پہنچا ہے، صورت حال ابتر ہے پچھلے بجٹ کے موقع پر مہنگائی میں گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد اضافے کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن وہ 47 فیصد پر پہنچی ہوئی ہےاندازہ تھااکنامک گروتھ پانچ فیصد ہوگی، لیکن اندازہ ہے یہ 3اعشاریہ پانچ فیصد ہے، لیکن عالمی بینک کے مطابق اگلے سال کی گروتھ اعشاریہ چار فیصد ہوجائے گی میرا خیال ہے اعشاریہ چھ اور پانچ کے درمیان ہوگی یہ ہماری اکنامک گروتھ کا حال ہے۔

پچھلے مالی سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نواعشاریہ دو فیصد تھا اور وہ 10فیصد پر ہے حالانکہ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 15 سے 20فیصد ہونا چاہیے جو ترقی پذیر ملک کے لیے اچھی علامت تصور کی جاتی ہے، ہمارے یہاں 78فیصد ٹیکس گیپ ہے صرف ایک سے دوفیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور ہرسال ان ہی کا گلا دبایا جاتا ہے، ایف بی آر کا کرداربڑا حوصلہ شکن ہے، ہو جوڑ توڑ ذیادہ کرتے ہیں 30 فیصد کا کہہ کر دس فیصد پر معاملات طے ہوکرلیے جاتے ہیں، ہمارے معاشی حالات یوں چل رہے ہیں۔ جب تک ملک کے ساتھ کھیلاجاتارہے گا، کتنا اچھا بجٹ پیش کرلیں ہم بہتر نتیجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ 

آنے والا بجٹ میں شاید12 ٹریلین کا ہوگا،یعنی اس سال کم ازکم ڈھائی فیصد ٹریلین بڑھنے کا امکان ہے۔ بجٹ کا اعلان تو ہوجائے گا،آمدنی اوربجٹ میں اخراجات کا بتادیا جائے گا، لیکن ان اخراجات کے لیے جس آمدنی کی ضرورت ہےاسے حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں۔ کسی بھی معیشت کے چار ستون ہوتے ہیں لیگل، اکنامیکل، پولیٹیکل اور ایڈمسٹریٹو موجودہ سیاسی حالات میں ان چاروں نے پاکستان کو گھیر رکھا ہے، لیگل سسٹم کا حال سامنے ہے، یہاں بعض اوقات چیف جسٹس کو جسٹس نہیں ملتا،ایڈمسٹریٹو صورت حال کا اندازہ ریلوے اور پی آئی کی کی تباہی سے لگایا جاسکتا ہے۔پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں ایف آئی اے جیسے ادارے کا مجرموں کو سزا دلوانے کاریشو تین فیصد سے بھی کم ہے، سنگاپور میں90فیصد ہےیہاں بہت سارے مسائل ہیں۔

گزشتہ روز ڈسکاوئنٹ ریٹ بڑھایا گیا ہے، مہنگائی قابو کرنے کے لیے ہمارے معیشت کے پاس کوئی حل نہیں اگر ایوریج دیکھیں تو ہماری یہاں قیمتیں کہاں جارہی ہے۔ہماری مانیٹرنگ سسٹم معیار پر نہیں صرف تعدا د پر جاتا ہے۔کل عالمی بینک نے بتایا تھا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے ہماری صرف بجلی کا سرکلر ڈیبٹ دو اعشاریہ دو ٹریلین روپے ہے، پچھلے سال ہمارا کل سرکلر ڈیبٹ دو اعشاریہ چار ٹریلین روپے تھا جوبڑھ کر آج چار اعشاریہ چار ٹریلین پر پہنچا ہوا ہے۔

اب سرکلر ڈیبٹ کو قابو کرنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی حل ہے اسے یقینی طور پر مزید مہنگائی کی طرف جایا جائے گا، ہمارے اخراجات کے دو بنیادی حصے ہیں ایک ترقیاتی اوردوسرا غیر ترقیاتی، اگر غیر ترقیاتی اخراجات کی طرف جاتے ہیں تو بڑا خرچ دفاع کا ہے، پچھلے سال اس کا بجٹ ایک اعشاریہ پانچ ٹریلین روپےتھا،دفاعی بجٹ بھی دوطرح کےہیں کومبیٹ اور نان کومبیٹ، آپ نان کومبیٹ اخراجات کو قابو کرسکتے ہیں، کومبیٹ اخراجات پر بات نہیں ہوسکتی کیوں کہ ہمیں اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھنا ہے۔

آئی ایم ایف کی ایک او ر شرط پنشن سے متعلق ہے، ہمارا قریباً500ارب روپے پنشن کا بجٹ ہے، آئی ایم ایف اسے ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے، آئی ایم ایف سبسڈیز کو ختم کرنے کا کہہ رہا ہے، پچھلے سال 700ارب روپے کی سبسڈیز دی گئی تھی وہ اسے ختم کرنے کا تقاضا کررہا ہے۔ اس مرتبہ توقع کی جارہی ہے کم ازکم تنخواہ جو 25 ہزار ہے وہ 35 سے40 ہزار روپے ہوجائے گی۔ تو جو کاروباری افراد 25ہزار تنخواہ دینے کو تیار نہیں ہے وہ35 سے 40ہزار روپے کیا دے گا۔ایسے بہت سارے مسائل ہیں۔

جنگ: بجٹ بنانے کے لیے بنیادی مشکلات کیا درپیش ہوں گی؟

پروفیسر ڈاکٹر سید شبیب الحسن: ہمارا بجٹ سال میں صرف ایک مرتبہ نہیں ہر پندرہ دن بعد آتا ہے، پٹرول جو بنیادی ضرورت ہے، اس کی قیمت سے ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمت پر فرق پڑجاتا ہے۔ وہ کم ہو یازیادہ ہرصورت ہر پندرہ دن بعد نیا حساب سامنے ہوتا ہے، ابھی موجودہ جس طرح کے سیاسی حالات ہیں اگر عالمی سطح کے معاشی حالات دیکھیں تواس پر پیش گوئی کرنا کہ اگلا مہینے یا چھ مہنے بعد یا سال بعد معاشی حالات کیسے ہوں گے یہ کہنا بہت مشکل ہے۔

ہم صرف یہ امید کرسکتے ہیں کہ آنے والے بجٹ میں حکومت کو ضرورت کے مطابق لوگوں کو چیزیں فراہم کرنی چاہیے،میں سمجھتا ہوں ہمارا بڑا مسئلہ بجٹ یا معیشت نہیں بلکہ سماجی ہے ساری سوسائٹی کا مسئلہ ہے،مہنگائی بڑھنے سے غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن جب بازار جائیں کسی ریسٹورنٹ میں جائیں، سڑک پر نکلیں آپ کو بالکل اندازہ نہیں ہوگا کہ اس ملک کو بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ کسی سے نہ پوچھیں صرف بازار جاکر جائزہ لیں، ریسٹورنٹ جاکر دیکھیں وہاں کی چہل پہل اور رونق سے اندازہ ہوجائے گا۔

پروفیسر ڈاکٹر سید شبیب الحسن
پروفیسر ڈاکٹر سید شبیب الحسن

اس کی وجہ یہ ہے لوگوں کے پاس ابھی وسائل ہیں اور ہمارا مسئلہ اس کی مینجمنٹ ہے، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ میری پریشانی دور ہو میرا مسئلے حل ہوں دوسرے کا ہوتا ہے یا نہیں مجھے کوئی سروکار نہیں کیوں کہ یہ میری پریشانی نہیں ہے۔ ہماری ترجیحات مختلف ہیں اسی لیے میں اسے سماجی مسئلہ سمجھتاہوں، یہاں حکومتوں نے بااختیار لوگوں نے پچھلے ستر پچھتر سالوں میں اپنا قومی مفاد طے نہیں کیا ہے،خود کو زیادہ اہمیت دی ہے میرا کہا درست ہے سامنے والا غلط ہے میں مستحق ہوں سامنے والے نہیں توسارا مسئلہ تقسیم کا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ غربت بڑھ رہی ہے اور ہم نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں دے رہے، ہم نے ڈھنگ سے ترجیحات طے نہیں کی اپنے وسائل کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ اگر اس کا درست جگہ استعمال کیا جائے تومسائل خود بہ خود حل ہوں گے دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کے پاس ہم سے زیادہ آبادی اور کم وسائل ہیں، لیکن وہ ہم سے زیادہ خوش حال ہورہے ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہے انہوں نے اپنے وسائل کا ڈھنگ سے احاطہ کیا ہے لہٰذا اگر اپنا ملک ٹھیک کرنا ہے تو پہلے ترجیحات درست کرنی پڑے گی، ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے مرکزی نقطہ کیا ہوگا ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہم اپنے ملک کے لیے جو چاہتے ہیں اس کے لیے ہم خودکیا کررہے ہیں، آپ سڑک پر نکلیں بے ہنگم ٹریفک نظر آئے گا کسی کو فکر ہی نہیں ہے بس میں کسی طرح نکل جاوں،جس معاشرے میں یہ ہوگا وہاں ہر طرح کے مسائل ہوں گے چاہے وہ معاشی ہوں سیاسی ہوں یا انتظامی۔ 

ہم اپنے ملک سے مخلص نہیں ہیں، آپ اپنے ارد گرد دیکھیں جس ادارے کے ساتھ قومی لگ گیا اس ادارے کا بیڑا غرق ہوا ہے،لوگوں کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ ایسے ادارے صرف استعمال کے لیےہیں اسے واپس کچھ نہیں دینا ہے،یہاں سے ختم ہوجائے گا تو بیرون ملک نکل جاتے ہیں جتنے بھی اہم سیٹوں پر بیٹھے افراد ہیں ان کے پاس دوہری شہریت ہے، یہاں سے نمٹنے کے بعد بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں جس کو باہر نکلنے کا موقع ملتا ہے پہلی فرصت چلاجاتا ہے اور کوشش کرتا ہے وہاں کی شہریت مل جائے ۔،توہمارا بڑا مسئلہ معاشی نہیں بلکہ سماجی ہے۔

ہم نے آج تک اپنی چیز کو اپنا تسلیم ہی نہیں کیا، میں سمجھتا ہوں دنیا میں اگر سب سے زیادہ کسی کے میم بنے ہوں گے تو وہ پاکستان کے ہوں گے اور سب سے زیادہ برا حال ہم نے اپنے ملک کا کیا ہوا ہے، اپنا تسلیم کرنا زبان سے نہیں ہوتا، اسے عملی طور پر بتایا جاتا ہے۔ جب تک اپنا اپنا کرکے سوچیں گے قوم نہیں بنیں گے اور ترقی اور آگے بڑھنے کا سوچ ہی نہیں سکتے ، تو پہلے ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ: بجٹ کےلیے آپ کیا تجاویز دیں گے، کاروباری صورت حال کیا ہے، اورکس قسم کی مشکلات درپیش ہے؟

زبیرطفیل: پاکستان بہت مشکل دور سے گزرہا ہے، معیشت ٹھیک سے نہیں چل رہی،مہنگائی کا دوردورہ ہے، کم آمدنی والے لوگوں کی تنخواہیں نہیں بڑھ رہی،اشیا خوردو نوش دال ،سبزی اور گوشت سب کی قیمتیں ریکارڈ مہنگی ہیں۔ جس شخص کی آمدنی 50ہزار سے کم ہے میں اسے عام مزدور میں شمار کرتا ہوں، بڑے دکھ کی بات ہے کوئی غریب عورت یا مرد دس کلو آٹے حاصل کرنے کی کوشش میں جان سے چلا جائے، بزرگ خواتین 1500روپے کے آٹے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑی ہیں اور پھر افراتفری میں لوگوں کے پیروں تلے کچلی گئیں، یہ کراچی میں بھی ہوا پنجاب اور خیبرپختون خوا میں بھی ہوا، ایسے واقعات کا ہونا خاص طور پر حکومت کے لیے شرم کا مقام ہے، غریب کو آٹا فراہم کرنے کااس سے بہتر طریقہ ہوسکتا تھا۔ کوویڈ کے دنوں میں حکومت نے کچھ نہ کچھ مدد گھر تک پہنچا ئی تھی، آٹے کے ٹرک لائنوں میں کھڑا کرکے دینے کے بجائے محلوں میں بھیج دیتے تو وہ بہتر تھا۔ 

زبیرطفیل
زبیرطفیل

پہلے ہم افریقا کے ملکوں جیسے ایتھوپیا کی مثال سنتے تھےاب بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے پاکستان اس مقام پر پہنچ گیا ہے ، ماضی کاایتھوپیابدل گیا ہے وہ پاکستان سےبہتر مقام پر ہے۔ بجلی گیس مہنگی ہے لیکن مہنگی ہونے کے باوجود اب گیس گھروں کو میسر بھی نہیں ہے۔ خوراک 45فیصد مہنگی ہوگئی ہیں قیمتیں ماہانہ چارفیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہیں۔جس طرح بجلی اور گیس مہنگی ہورہی ہےہماری انڈسٹری اتنی مہنگی قیمت کے ساتھ مال تیارکرکے عالمی مارکیٹ سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ 

آنے والے چند ہفتوں میں ملکی صورت حال مزید خطرناک ہونے جارہی ہے، سینکڑوں صنعتیں بند ہوجائیں گی۔ صنعتیں دووجوہات کےسبب بند ہورہی ہیں پہلی وجہ یہ کہ ملک میں فارن ایکسچینج نہیں ہیں ہماری کئی صنعتوں کو اپنی پیداوار جاری رکھنے کے لیے خام مال بیرون ملک سے منگوانا پڑتاہے گزشتہ چار مہینے سے اسٹیٹ بینک ڈالر مناسب طریقے سے فراہم نہیں کررہا جس کے باعث کئی صنعتیں بند ہوچکی ہیں، انہوں نے پہلے سے صنعتوں کو آدھی پیداوار پر کام کرنے کو کہا ہے لیکن پھران فیکٹریوں میں کام کرنے والے لوگوں کا کیا ہوگا، صنعت کاروں ابھی کسی نہ کسی طرح کام چلارہے ہیں لیکن شاید اپریل آخری مہینہ ہو۔ 

صنعت کاروں نے سوچا ہے کہ ابھی نقصان ہو بھی تو برداشت کرو کیوں کہ رمضان میں کسی کو بے روزگار نہ کیا جائے، لیکن اس کا بعد براہونے جارہا ہے اندازہ ہے کہ اگر حکومت خام مال خریدنے کے ڈالر نہیں دے گی تو پھر حکومت یہ آزاد ی دے کہ لوگ ڈالر کابندوبست خود کرلیں،کیوں کہ جب اوپن مارکیٹ سے ڈالر لینے جائیں گے توپوچھ گچھ کے لیے ایف آئی اے آجاتی ہے۔تو خدشہ ہے مئی اور جون میں بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہوجائیں گی اور ہزاروں نہیں لاکھوں افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔

اگر ملک کا اقتصادی نظام چلے گاتو خود بہ خودروزگار کے ذرائع پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے آنے والے ماہ خراب ہوں گے، آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں حکومت اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے، آئی ایم ایف نے بہت سارے مطالبات رکھے جو ہماری حکومت نے ایک کے بعد ایک تمام مطالبات تسلیم کرلیے ہیں، انہوں نے شرح سود 22فیصد کا کہا تو 21 فیصد تو ہے، شرح سود 22فیصد ہو تو صنعتوں کو 24فیصدشرح پر ملتا ہے، یعنی اسے ماہانہ دو فیصدانٹرسٹ دینا ہے۔ 24فیصد انٹرسٹ ریٹ پر کوئی بھی کاروبارنہیں چل سکتا لہٰذا صنعتیں خود بہ خودبند ہوں گی۔ 

حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی،حزب اختلاف اور حکومت ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہے، دونوں کو ملک کے بائیس کروڑ عوام کی کوئی فکر نہیں ہے، صنعت اور تجارت کا کام ہےوہ چلے جب وہ چلتی ہیں تو روزگارپیدا ہوتے ہیں، اب صنعت ہی بند ہونے کے قریب ہے، حکومت کو ان حالات سے بچنے کےلیے حل نکالنے ہوں گے، اگر سیاست دانوں نے اختلافات طے نہ کیے تو پھر ماضی کی طرح فوج آنے کا امکان پیدا ہوجائے گا اور عوام بھی کہیں گے یہ ہی فیصلہ درست ہے،فوج کا حکومت سنبھالنا دنیا میں کہیں بھی اچھا تصور نہیں کیا جاتا اور جب فوج حکومت سنبھالتی ہے تو ابتدا کے تین سال اچھے ہوتے ہیں بعد میں صورت حال خراب ہونا شروع ہوجاتی ہےجیساکہ ماضی میں جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کےدور میں ہوا۔ ہمارے چین کے علاوہ دیگر پڑوسیوں سے بھی تعلقات خراب ہیں جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ: ہم ڈالر کی قلت کو کیسے دور کریں، حکومت پٹرول پر کچھ سبسڈی دینے کی کوشش کررہی تھی لوگوں کو یہ سہولت کیسے دی جاسکتی ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم : پچھلے سال ہمارا ریمی ٹینسس قریبا32 سے33ارب ڈالر تھا،اس سال ماہانہ ریمی ٹینس دو ارب ڈالر کے قریب آرہے ہیں، تخمینہ یہ ہے کہ اس سال کے آخر تک25سے 26ارب ڈالر ہمارے پاس آجائیں گے،اس طرح ریمی ٹینس میں ایک بڑا گیپ آیا ہے۔ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے بیرون ملک مقیم پاکستانی موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں کررہے اور یقینا ملک پر اعتماد کا فقدان بھی ہے، آئی ایم ایف بھی بضد ہے وہ ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر دینے بیٹھا ہےلیکن بجٹ کے انتظار میں ہے جس میں وہ اپنی شرائط کا جن اسٹرکچرل ریفارمز کا اس نے کہا ہےاس کاجائزہ لے گا، آئی ایم ایف نے پنشن دینے پر اعتراض کیا ہے، ہم بجٹ میں کیا کریں گے وہ دیکھنے کے بعد پیسے دے گا۔

ہمار ا پڑوسی ملک بھارت کےزیرخزانہ الرٹ ہوگیا تھا جب اسے یہ خدشہ ہوا کہ خسارہ دوگنا ہوسکتا ہے، ہمارے وزیرخزانہ تو ویسے ہی دوگنے خسارے کا سامنا ہے، وزیر خزانہ کو سوچنے کے لیے بیٹھ جانا چاہیے، پاکستان اس وقت ٹوئن خسارے میں ہے، ٹوئن خسارے سے مراد کرنٹ خسارہ اور فسکل خسارہ، جتنا زیادہ فسکل خسارے کا گیپ بڑھتا جائے گا،تو حکومت کا قرضہ بھی بڑھتا جائے گا جب قرضہ بڑھے گا تو نجی کمپنیوں کےلیے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں گے، فسکل خسارہ ملک میں جیسے جیسے بڑھ رہا ہے، ہمارا فسکل خسارہ جی ڈی پی آٹھ فیصد ہے،آپ فرض کریں کہ اگر 300 ارب ڈالر ہمار اجی ڈی پی ہے تو 24ارب کی مزید ضرورت پڑرہی ہے۔ 

اب حکومت قرض لینا چاہتی ہے لیکن کوئی دینے کو تیار نہیں، چینی بینک نےکمرشل لون ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا بہت زیادہ سود پر فراہم کیا،جس کی وجہ پاکستان پر اعتماد کا بڑا فقدان ہے۔ان حالات میں کیا کرسکتے ہیں تو پہلے الیکشن میں جائیں کیوں کہ کاروباری صنعتی طور پر کوئی بھی بڑی تبدیلی فوری طور پر نہیں آسکتی، جنوری فروری میں ایک ٹریلین روپے لوگوں نے بینک سے نکالے ہیں،جس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ان کی خریدنے کی قوت کم ہوگئی ہو یا شاید حکومت پراعتماد کم ہوگیا ہے انہیں خدشہ ہو کہ ملک دیوالیہ اگر ہوگیا تو ہمارے پیسے پھنس جائیں گے ہوسکتا ہے روپیہ نکال کر ڈالر یا سوناخریدا ہو کچھ بھی ہوسکتا ہے جب اس طر ح کی افراتفری صورت حال ہو، ایسی ا بتر صورت حال میں ڈی لرائزیشن پر جانا پڑے گا۔

جب آپ کے پاس پیسے نہیں ہوتے اور ادائی ڈالر میں کرتے ہیں اس لئے پھر آئی ایم ایف سے مدد مانگتی پڑتی ہے ایسی بلیک میل صور ت حال میں آئی ایم ایف اپنی شرائط منواتا ہے۔ تو ہمیں اس سے بچنے کےلیے ڈی ڈالرائزیشن کی طرف جانا چاہیے، میں اگر سعودیہ سے تجارت کرتا ہوں ان سے تیل لینا چاہتا ہوں تو میں کیوں نہ سعودی ریال میں کروں،چین سے کاروبار کررہا ہوں تو چینی ین میں کیوں نہ کروں۔ پہلے ہم کرنسی کو ڈالر میں تبدیل کرتے ہیں پھر تجارت کرتے ہیں اس سے پہلے کرنسی تبدیل کرنے کی قیمت بھی دینی پڑتی ہےجس سے ہماری قیمت اور بڑھ جاتی ہےجو ایک اور بوجھ ہے لہذا ہمیں اس طرف جانا پڑے گا۔

ایک اور طریقہ ہے اپنے پڑوسی ممالک سے تجارت کیوں نہیں کرتے ان سے بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کریں کسی کے ساتھ مجبوری کے سبب نہیں کرسکتے لیکن جن سے تجارت کررہے ہیں ان سے اس طرح کے معاہدے کئے جاسکتے ہیں۔ یہ آئی ٹی کا دور ہے موجودہ بجٹ میں اسے زیادہ سہولت دیں، آئی ٹی انڈسٹری فارن ایکسچیج کے لیے بڑا آمدنی کا ذریعہ ہوسکتا ہے،لوگ چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر سافٹ ویئر ہاوس کھولتے ہیں اور ڈالر کماتے ہیں۔

موجودہ حکومت سے میری درخواست ہےکہ وہ بجٹ لے کر آئے تو آئی ٹی انڈسٹری پر توجہ مرکوز کرے، اس انڈسٹری کو زیادہ زیادہ مراعات دی جائیں۔یہاں سرکاری ملازم کو جوبے تحاشا مراعات دی گئی ہیں اس میں کٹوتی کرے، اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو انہیں پٹرول جیسی سہولت کے لیےلٹر کے بجائے پیسے دیے جائیں کہ آپ کو پٹرول کی مدمیں ماہانہ دس ہزار دیے جائیں گے۔ امپورٹ متبادل صنعتوں کوترقی دی جائے ایسی انڈسٹری کو ترغیباب دیں انہیں مراعات کی پیش کش کریں،ایسی صنعتیں ہمارے مستقبل کو محفوظ بنائیں گی ہمارے آئندہ نسلوں کے مستقبل کی ضامن ہوگی۔

ہمیں گلوبل سپلائی چین کا حصہ بننا چاہیے، آپ کوئی بھی دنیا کی گاڑی لیں اس میں چین کا کوئی نہ کوئی پرزہ ہوگا تو ہمیں بھی کسی نہ کسی چیز میں شامل ہونا چاہیے۔ ملٹی نیشنل نہیں ہوسکتا حکومت کا چاہیے کہ وہ دو طرفہ یا سہ طرفہ سطح پر جائیں گلوبل سپلائی چین کا حصہ بنیں۔یہ چند حکمت عملی ہیں بصورت دیگر جب پیسے نہیں ہوتے تو غیر دستاویزی معیشت کا حصہ مارکیٹ میں بڑھنے لگتا ہے۔ حکومت اپنی ضرورتوں کے لیے دستاویزی معیشت پر ٹیکس کابوجھ بڑھانے پر مجبور ہو گی اور جب ایسا ہوگا تو لوگ اپنےفائدے کی آمدنی کو چھپائیں گے۔ تو مجھے خدشہ ہے آنے والے دنوں میں ہماری غیردستاویزی معیشت کالے دھن کا حجم بڑھنے والا ہے۔

جنگ: عوام دوست بجٹ اور کاروبار دوست بجٹ آپ کے ذہن میں کیا ایسی تجاویز ہیں بجٹ میں عوام اور کاروبارکی مشکلات کیسے کم ہوں سکتی ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر سید شبیب الحسن : ہماری ہمیشہ کوشش رہی ہے قرض کے چراغ سے روشنی کریں،سب سے آسان حل ادھار لیں اور اس سے کام چلالیں تو آخر میں ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ قرض دینے والا کہہ رہا ہے میں آپ کو کیوں دوں، اعتماد کا فقدان یوں ہے کہ ہم اتناقرض لے چکے ہیں کہ دینے کےلیے کچھ نہیں ہے، دنیا میں بہت سی ایسی معیشت ہیں جن کے گلوبل گولز بن رہے ہیں، ایران میں پابندی لگی رہی وہاں ڈالر نہیں آیا لیکن ان کا ملک بند نہیں ہوا،انڈیا 1947 سے1991 تک بند معیشت رہا امپورٹ نہیں تھی لیکن ملک بند نہیں ہوا،لیکن ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ڈالر نہیں آئے گا تو پھر کچھ بھی نہیں آئے گا، یہ فرض کرلیا کہ ہمارے تمام مسائل کو امریکا حل کرے گا۔

ڈی ڈالرائزیشن اتنا آسان نہیں ہے ابھی ہم نے روس سے بات کی کہ ہم پٹرول روبل میں لیں گے، ہمارےیہاں سیاسی ہنگامہ شروع ہوگیا،کیوں کہ ہم 1973 اوپیک معاہدے کے تحت تیل کی خریدو فروخت ڈالر میں کرتے ہیں۔ انڈیا نے پٹرول لے لیا کیوں کہ وہ 1953 سے روس کے ساتھ تجارت میں ہے اس نے فائدہ اٹھایا ہم وہ نہیں کرسکتے ابھی جن حالات کا شکار ہیں اس میں آسانی سے ڈالر سے علیحدہ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

اگر روس چین سمیت ایک بلاک بن رہا ہے اس موقع پر کچھ ہوتو ہو لیکن وہ بھی بہت مشکل فیصلہ ہوگا۔ ہمارے معاشرے نے کوشش کی ہے لوگوں کا مانگنا سکھائے کیوں کہ قرض ہماری اشرافیہ یا سیاسی اشرافیہ مانگتی ہے لہذا لوگوں کو ایسابنایا جائے کہ وہ صرف مانگنے پر لگیں رہیں۔ دوہزاربیس کوویڈ کے دنوں میں جب سب بند تھاپانی کے ٹینکر کی سروس بھی بند تھی کوئی ٹینکر سڑک پر نظر نہیں آتا تھا حالانکہ پانی کی ضرورت تو تب بھی تھی لیکن ان دنوں گھروں میں پانی آرہا تھا، ہم نے فری دسترخوان کا نیا کلچر بنالیا ہے جائیں اور مفت میں کھانا کھائیں، لیکن مچھلی پـکڑنا نہیں سکھایا، میری حکومت کو تجویزہے کہ چھوٹی صنعتوں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے مراعات دیں ،زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے طور پر روزگارپر لگائیں مشکلات بہت ہیں، لیکن حل یہ ہی ہے اپنے لوگوں کو زیادہ سےخود انحصاری کی طرف لے کر جائیں۔

ہم عرصے سے سن رہے ہیں پاکستان ایک سوئی تک نہیں بناسکتا اس کا مطلب ہے ابھی چھوٹے سے چھوٹے کام میں بہت گنجائش ہےکئی بڑی آٹو موبائل کمپنیاں یا گاڑیاں تیار کررہی ہیں لیکن پرزے سارے باہر سےآتے ہیں ہم صرف اسمبلڈ کررہے ہیں ایسا کیوں ہےہم بھی پرزے بناسکتے ہیں۔ ہم نے کبھی کوشش نہیں کی ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرکے بڑی طرف جائیں۔ ہمارے یہاں وسائل کا مسئلہ نہیں ہے صرف ترجیحات کا مسئلہ ہے، حکومت ایسی ترجیحات کی طرف جائے جس سے ملک ترقی کی طرف جائے ،ہمیں مانگنے والا کلچر ختم کرنا ہوگایہ مشکل فیصلہ ہے۔ عوام کو چھوٹے سے چھوٹے کاروبارکی طرف جاناپڑے گا جو وقت کے ساتھ ترقی کرے گا وہی سے تبدیلی آئے گی۔ابھی جس ابتری کی بات ہورہی تھی وہ خرابی1970 کے بعد سے ہے اس سےپہلے ہم پر قرض نہیں تھا ہمیں اس کے بعد قرض کی عادت پڑی جب قرض لے کر کھانے کی عادت پڑجائے تو پھر اس سے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور آپ غلام ابن غلام ابن غلام بنتے رہیں گے۔

جنگ: بجٹ میں ایسے کون سے اقدامات لیے جائیں جو انڈسٹری کےلیے بہتر رہیں گے؟

زبیر طفیل: جو حکومت بھی بجٹ بناتی ہےاس میں مزدورکی کم از کم تنخواہ 35ہزار مقررکی جائے، جو حالات ہیں اس میں کالج یونی ورسٹی سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کو روزگار ملنا مشکل ہوتا جارہا ہے نوجوان دماغ سے سوچیں کہ وہ ایسی کیا چیز تخلیق کریں یا بنائیں جو مارکیٹ میں فروخت ہوتو فائدہ ہو، ایسا کرنے کے لیےآئی ٹی بہت بڑا سیکٹر ہے انڈیا اسی سیکٹر سے سوبلین ڈالر سے زیادہ کمارہا ہے۔

دوسرا میں حکومت کو مشورہ دوں گا کہ جو نوجوان یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے نکلتے ہیں انہیں اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے ایک بجٹ مہیاکیا جائے، وہ بجٹ10، 25 ،40یا پچاس لاکھ کا ہو اس کے لیے اسٹیٹ بینک اپنا میکنزم بنائے کہ کمرشل بینک فارغ التحصیل طلبا کو کم شر ح سود پر قرض فراہم کریں،24 فیصد سود پر دنیا کو کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔

میرے رائے میں یہ لون تین سال کےلیے بلاسود ہو تاکہ وہ اس دوران اپنے اپنے کاروبار قائم کریں، وہ ملازمت ڈھونڈنے کے بجائے لوگوں کو ملازمت دینےکی پوزیشن میں آئیں۔ صنعتیں اسی وقت چلیں گی جب حکومت دیگر معاملات کو آسا ن کرے،حکومت پڑوسی ممالک سے ڈالر کے بجائے ان کی کرنسی میں کاروبار کے معاہدے کرے تاکہ ہم ڈالر کے چنگل سے آزاد ہوں۔

حاضرین کے سوالات

منصور معطر: تاجر برادری اور صنعت کاروں پر الزام لگتا ہے کہ وہ حکومت سے تعاون نہیں کرتے حکومت بازار صبح کھولنے اور شام کو بند کرنے کا کہتی ہے آپ اعتراض کرتے ہیں کیوں ؟

زبیر طفیل: بازار دیر سے کھولنے اور بند کرنے پر کہوں گا بحثیت قوم ہماری عادتیں خراب ہیں دنیا بھر میں دن کی روشنی میں کاروبار کیا جاتا ہے تاکہ بجلی کی بچت ہو لیکن ہمارے یہاں معاملہ الٹا ہے۔ میں کاروباری اوقات دن کی روشنی میں کرنے کے حکومتی اقدام کی ہمیشہ سے حمایت کرتا ہوں، تمام دکانیں مارکیٹ آٹھ بجے کھلیں اور شام چھ بجے بند کردی جائیں تاکہ بجلی کی بچت ہو بجلی ویسے ہی بہت مہنگی ہوچکی ہے ،مجھے اس کےلیے کافی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے ملک میں چند ہزار روپے قرض سے کوئی کاروبار نہیں ہوسکتا حکومت کو چاہیے کمرشل بینک کے ذریعے طلبا کو لون دے جس میں شرائط زیادہ کڑی نہ ہوں۔ لون کتنا ہونا چاہیے یہ اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینک اپنے وسائل دیکھ کر فیصلہ کریں۔ ہمارے نوجوان باصلاحیت ہیں انہیں دبائے نہیں آگے آنے دیں۔حکومت کو چاہیے گندم کے کاشت کارکی زیادہ سے زیادہ مدد کرے جو گندم آج 25 ملین ٹن پر ہے وہ اگلے دو سے تین سال پر 30ٹن پر چلا جائے گا اور ہوسکتا ہے ہم گندم امپورٹ کے بجائے ایکسپورٹ کرنے والے ملک بن جائیں۔

زاہد فاروق: یہ الیکشن سال ہے موجودہ بجٹ کو عوام دوست کیسے بنایا جاسکتا ہے؟

ڈاکٹر ظفر ناصر: میرا خیال ہے الیکشن کا سال ہے قوی امید ہے کم از کم تنخواہ 35 سے 40 ہزار کا اعلان ہوجائے گا لیکن یہ ملے گا یا نہیں اس کا کچھ نہیں کہ سکتے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی مز ید بہتری لائی جاسکتی ہے، اگر موجودہ حکومت بجٹ بنائے گی تو امید ہے وہ بہتر ہوگا۔

جنگ: آپ نے کہا آئی ایم ایف کا معاہدہ بجٹ کے بعد تک جائے گایہ بات آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم: آئی ایم ایف نے کئی شرائط لگائی ہیں جس میں سے ایک پنشن کا خاتمہ بھی ہے کچھ ایریاز میں ٹیکس بڑھانا ہے، سبسڈیز کم کرنی ہے یہ سارے اعلانات بجٹ میں ہی بتائیں جائیں گے لہذا پھر اسی کے بعد یہ ممکن ہوگا۔

جنگ: حکومت کہتی ہے کافی اقدامات ہم نے کردیئے ہیں تو یہ بھی کرسکتے ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف شمیم: آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ بھی تھی آپ اپنے فارن ایکسچیج ریزروز کو 12ارب ڈالر تک لے کر جائیں ،ابھی ہمارے پاس چاراعشاریہ سات ارب ڈالر ہیں، انہوں نے آٹھ ارب ڈالر کی تصدیق دوست ممالک کی مانگی تھی لیکن اب تک وہاں سے لکھ کر بھی کوئی دینے کو تیار نہیں ہے تو یہ شرط اب تک مکمل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اگر یہ شرط بھی مکمل کردی جائے تو میں سمجھتا ہوں آئی ایم ایف بجٹ آنے تک جون سےپہلے لون جاری نہیں کرے گا۔

جنگ: پاکستان کے ڈیفالٹ کے کیا خدشات ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف: اگر آپ اپنی آمدنی سے اپنے اخراجات پورے نہیں کرپارہے تو آپ ڈیفالٹ ہوگئے، میرے خیال میں اگر ڈیفالٹ کا اعلان کردیا جائے تو بہتر ہوگا پھر مجبوری میں سہی لیکن ان ایریا ز میں کام کریں گے جن سے ہم کترارہے تھے۔ ہمارا بڑا بل تیل کا ہے اس کے بعد ہم اپنے وسائل استعمال کریں گے، ہمارے پاس توانائی کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سید شبیب الحسن: ہماری ایل سیز نہیں کھل رہی اس کا کیا مطلب ہے اس کا مطلب ہے ہم ڈیفالٹ ہوچکے ہیں صرف ڈیکلئیر کرنا رہ گیا ہے میرے خیال میں یہ کردینا چاہیے، اس کے بعد اس دباو سے نکل آئیں گے جس پر آج ہیں، سری لنکا نے ڈیفالٹ کیا لیکن دنیا کے نقشے پر موجود ہے وہ اب خود پر اپنے لوگوں پر انحصار کرے گا مسلمہ اصول ہے کہ مانگے ہوئے چراغ سے روشنی نہیں ہوتی۔

زبیر طفیل: پاکستان ابھی آفیشلی ڈیفالٹ نہیں ہوا ہے لیکن آثار نظر آرہے ہیں کہ مستقبل قریب میں ڈیفالٹ ہوجائےگا ابھی تک وہ ساورن ادائی کررہے ہیں لیکن دباؤ بہت ہے اب انہوں نے امپورٹ پربھی پابندی لگادی ہے۔