کراچی، لاہور(نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان جتنا مرضی زور لگالیں، ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہونگے اور نگراں سیٹ اپ کے تحت ہی ہونگے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے یقیناً ایک سنجیدہ کوشش کی ہے اور وزیراعظم نے انہیں مثبت جواب دیا ہے کہ سیاست میں گفتگو کو کبھی بھی بند نہیں کیا جاسکتا، مسائل کو حل کرنے کیلئے یہی ایک راستہ ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف سے وہی ہٹ دھرمی ہے، وہی تکبر اور انا ہےبڑا واضح پیغام آیا ہے کہ میں تو نہیں بیٹھوں گا میں ٹیم مقرر کردوں گا،ان کی ٹیم کے پلے تو کچھ نہیں ہوتاانکی تو نہ وہ سنتا ہے اور نہ وہ کلیم کرسکتے ہیں ایسی صورت سنجیدہ مذاکرات کی راہ نظر نہیں آرہی، اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں، غیرآئینی عمل ہوا ،4 ججز کا ایک فیصلہ 3ججز کا الگ فیصلہ ہے،نامناسب عمل ہوگا تو رد عمل مناسب کیسے ہوگا،انا اور ضد پر مبنی غیر آئینی کام ہونگے تو پارلیمنٹ کو آگے آنا چاہیے،جو ادارہ الیکشن کیلئے فنڈ دیگا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو اور فیصل آباد افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جیو کے پروگرام گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ ، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انتخابات مقررہ وقت پر اسی سال ہوں گے، اگرالیکشن مئی میں نہیں ہوتے تواکتوبر بھی زیادہ دور نہیں، ہماری رائے یہ ہے کہ الیکشن ایک ساتھ ہونا چاہیے نگراں سیٹ اپ کے تحت ہونا چاہئیں ۔ اس میں جو پچھلے گیارہ ماہ سے فتنہ گری کی ہے فساد پھیلایا ہے ۔یہ دھونس کے ذریعے چاہتا ہے کہ میں اپنی مرضی سے الیکشن کراؤں گا اس کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔تاکہ آئندہ بھی کسی کو گھٹیا سیاست ، تکبر اورانا پرستی کاموقع نہ ملے۔اس لئے ہم اس شرط کے ساتھ الیکشن کی تاریخ اکتوبر سے پہلے کریں فلاں چیز کریں اسکے ساتھ ہم بالکل مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے۔جب مذاکرات میں بیٹھیں گے تو وہاں پر بالکل معیشت پر بھی بات ہوسکتی ہے الیکشن پر بھی بات ہوسکتی ہے منصفانہ انعقاد پر بھی ہوسکتی ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ علی زیدی کیخلاف جو مقدمہ درج ہے اس میں کیا حکومت مدعی ہے ایک شہری مدعی ہے مقدمہ درج ہوگیا ہے اس کو عدالت میں پیش کیا جائیگا، اگر غلط ہے تو عدالت رہا کردیگی ضمانت فراہم کردیگی اگر صحیح تو پھر اس کو پیسے واپس کرنا چاہئیں، اسکا الیکشن سے یا اس کاحکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات سے کیا تعلق ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ اگر اس نے 2011-12ء میں18 کروڑ روپے کا فراڈ کیاآج تک اس غریب کی شنوائی نہیں ہوئی تو شنوائی اسکی ہونی چاہیے۔اصل بات تو ہے کہ آیاس نے اس سے 18 کروڑ روپے لیا ہے یا نہیں لیا۔اگر نہیں لئے اور وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اسکے خلاف الٹا182 کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔انکی طرح جھوٹے مقدمات نہیں بنائے جارہے جو کسی کے ذمہ لگتا ہے ۔ہمارے خلاف تو آپ کو پتہ ہے کہ نیب کے کالے قوانین کو کس طرح استعمال کیا گیا۔ اب تو جو مروجہ قانون ہے اسکے تحت ان کیخلاف اگر کوئی ایف آئی آر ہورہی ہے تو ان کو گھر بیٹھے ضمانت مل جاتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ راجہ فاروق حیدر اس بات کی وضاحت کرسکتے ہیں کہ انکی مراد جنات سے کیا ہے اسکے بارے میں میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا۔جنات بنی گالہ میں اور وزیراعظم ہاؤس میں پائے جاتے رہے ہیں انکے کہنے پر فیصلے ہوتے رہے ہیں تقرریاں اور سیاسی فیصلے ہوتے رہے ہیں۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اسٹیٹ بینک کے متعلقہ افسران وہ رقم جاری کرینگے یا نہیں کرینگے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ادائیگی کرنے اور کروانے والے بعد میں ساری زندگی ریکوری کو بھگتتے رہیں۔21ارب کی ریکوری کوئی کتنا بڑا صاحب حیثیت کیوں نہ ہواس کیلئے بڑی مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس میں ایسا ہونے کے بڑے واضح چانسز ہیں کہ جو لوگ عمل کریں کل کو اسکے ذمہ دار ٹھہرائے جائینگے۔ گزشتہ74 سالوں میں کب ایسا ہوا ہے کہ چار ججز ایک فیصلہ دے رہے ہیں تین ایک فیصلہ د ے رہے ہیں۔آپ8 ججز کو بٹھائیں اور اپنی ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیں۔آج جس قسم کی صورتحال پیدا کی گئی ہے یہ صورتحال بھی تو بہت بری مثال ہے۔ یہ عمل ہی تو نا مناسب ہے جب ایک نا مناسب عمل ہوگا تو اسکا رد عمل مناسب کیسے ہوجائے گا۔ آئین بالکل نہیں کہتا کہ 90 دن سے زیادہ نہیں ہوسکتے یہ اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں۔ یہ اسمبلیاں ایک جھوٹی ضد اورانا کے اوپر قربان ہوئی ہیں یہ غیر آئینی عمل ہوا ہے۔فل کورٹ کو بیٹھ کر اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔