کراچی (رفیق مانگٹ) بھارتی ریاست اتر پردیش میں مبینہ پولیس مقابلے میں بیٹے اسد کی موت کے دوسرے دن ہی جیل میں قید سابق مسلمان رکن اسمبلی عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کو ہفتہ کی رات گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ دونوں بھائیوں کو گجرات کی سابرمتی جیل سے الہ آباد لایا گیا جہاں طبی معائنے کے بعداسپتال کے احاطے میں پولیس کی حفاظت میں میڈیا والوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے کہ انہیں گولیاں مار دی گئیں۔ ملزمان صحافیوں کے بھیس میں آئے، پولیس کی موجودگی میں فائرنگ کرتے رہے۔ قاتل اطمینان سے عتیق احمد اور اشرف کے قریب پہنچے اور گولیوں کی بوچھار کر دی۔ عتیق اور اشرف کے اردگرد جو پولیس اہلکار تھے، انہوں نے جیسے گولیوں کو راستہ دیا۔ قاتل تب تک پیچھے ہٹتے رہے جب تک گولیاں چلتی رہیں۔ پھر حملہ آوروں نے ‘جے شری رام’ کا نعرہ لگاتے ہوئے سرینڈر کر دیا۔ بھارتی ٹی وی ’آج تک‘ کی ویڈیو میں بتایا جا رہا ہے کہ میڈیا والے سوال پوچھ رہے تھے، پولیس کی سکیورٹی میں دونوں بھائی ساتھ تھے اور اسی دوران انہیں گولی مار دی گئی۔حملہ آور تین تھے ،حملہ سے پہلے’جے شری رام‘ کے نعرے لگے، جس کے بعد کئی راؤنڈ فائر ہوئے اورعتیق اور اس کے بھائی کی موت ہو گئی۔ قتل کا سارا منظر ٹیلی ویژن پر لوگ دیکھتے رہے۔ ٹی وی نیوز ریڈرز اس قتل کو بار بار پرجوش لہجے میں دکھاتے رہے اور ایک ایک فریم کا تجزیہ کرتے رہے۔ پورے یوپی میں دفعہ144کا نفاذ کردیا گیا۔ دونوں بھائیوں کے تینوں قاتل جن کی عمریں 18،22اور23سال ہیں ان کو 14دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا،پولیس کے مطابق ان میں سے دو کا مجرمانہ ریکارڈ ہے،انہوں نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قتل مشہور ہونے کے لئے کیے ، تینوں مجرموں کے خاندانوں کا کہنا کہ ان کا کافی عرصے سے ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ واردات میں ترک ساختہ پستول استعمال کیا گیا جس کا استعمال بھارت میں ممنوع ہے،اس کی قیمت سات لاکھ بتائی گئی۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہےکہ عتیق احمد کو ستیہ پال ملک کے حکومت مخالف انٹرویو سے توجہ ہٹانے کے لیے قتل کیا گیا۔ تاکہ ہم اس قتل پر بات کرتے رہیں اور ملک کے الزامات پر بات نہ ہو؟ مارچ میں ہی سپریم کورٹ نے عتیق احمد کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا، جس میں اس نے اتر پردیش پولیس کی حراست کے دوران اپنی جان کو خطرہ بتا کر سکیورٹی مانگی عدالت نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ریاستی مشینری اس کی دیکھ بھال کرے گا اور وہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ بھارتی سیاست دانوں کی جانب سے مسلسل تنقید کی جارہی ہے اور ریاست کے امن و امان پر سوالات اٹھائےجا رہے ہیں۔لوک سبھا ایم پی اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کیا عتیق اور اس کے بھائی کو پولیس حراست میں ہتھکڑیوں میں قتل کر دیا گیا، جے ایس آر کے نعرے بھی لگائے گئے۔ ان کا قتل وزیر اعلیٰ یوگی کی امن وامان کے نفاذ میں بڑی ناکامی کی اعلیٰ مثال ہے۔ انکاؤنٹر راج کا جشن منانے والے بھی اس قتل کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔یو پی کے سابق وزیر اعلی یادو نے لکھااتر پردیش میں جرائم اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہیں، اگر پولیس کی حفاظت کے درمیان سرعام گولی باری کرکے کسی کا قتل کیا جا سکتا ہے تو پھر عام لوگوں کی حفاظت کا کیا ہوگا؟ پرینکا گاندھی نے لکھا ہمارے ملک کا قانون آئین میں لکھا ہوا ہے، یہ قانون سب سے اہم ہے۔ مجرموں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے لیکن یہ ملکی قانون کے تحت ہونی چاہیے۔کسی سیاسی مقصد کے لیے قانون کی حکمرانی اور عدالتی عمل سے کھیلنا یا اس کی خلاف ورزی کرنا ہماری جمہوریت کے لیے درست نہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق عتیق کے بیٹے اسد احمد اور غلام، امیش پال کے قتل میں مطلوب تھے، جنہیں 24 فروری کو الہ آباد میں گولی ماری گئی۔وکیل امیش پال 2005 میں بی ایس پی ایم ایل اے راجو پال کے قتل کے گواہ تھے۔ عتیق احمد پر ایم ایل اے کے قتل کا الزام تھا۔امیش کے قتل کے الزامات سے جڑے چھ افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔ امیش پال کے قتل کے اگلے دن پولیس نے اس سلسلے میں جیل میں بند سابق ایم پی عتیق احمد، اس کی اہلیہ شائستہ پروین، اس کے دو بیٹوں، اس کے چھوٹے بھائی اشرف اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ 28 مارچ کوالہ آبادعدالت نے عتیق احمد کو امیش پال اغوا کیس میں سخت عمر قید کی سزا سنائی تھی۔عتیق احمد قتل اور اغوا سمیت 100 مقدمات کا سامنا کر رہا تھا۔یوپی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ عتیق احمد نے امیش پال کو قتل کرایا کیونکہ امیش نے اسے 2005 کے راجو پال قتل میں کلیدی ملزم کے طور پرنامزد کیا تھا۔الہ آباد کے ایم ایل اے راجو پال اور ان کے پولیس گارڈ کو 25 جنوری 2005 کو قتل کر دیا گیا تھا۔ راجو پال کے قتل کے پیچھے اصل مقصد اسمبلی ضمنی انتخاب بتایا جاتا ہے، جس میں انہوں نے الہ آباد سیٹ سے عتیق کے چھوٹے بھائی اشرف کو شکست دی تھی۔ 2004 کے انتخابات میں عتیق کے الہ آباد سے لوک سبھا سیٹ جیتنے کے بعد یہ خالی ہوگئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق ساٹھ سالہ عتیق احمد کی پیدائش پریاگ راج کے ایک غریب گھرانے میں ہوئی تھی 1989 میں انھوں نے سیاست کا سفر شروع کیا اور اس دوران اپنے حلقے سے ریاستی اسمبلی کے لیے پانچ بار قانون ساز منتخب ہوئے، جبکہ 2004 میں پھول پور کے حلقےسے پارلیمنٹ کے لیے بھی منتخب ہوئے۔وکرم سنگھ انھیں رابن ہڈ، ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ قسم کے کردار کے طور پر بیان کرتے ہیں جنھوں نے غریب لوگوں کی مدد کے لیے بے دریغ دولت خرچ کی۔ ان پر اغوا، قتل، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے کے الزامات سامنے آئے۔احمد کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ جیل میں رہنا پڑا ۔ سماج وادی پارٹی نے ان سے تعلقات توڑ لیے۔انھیں2017 میں پرتشدد حملوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر مغربی ریاست گجرات کی ایک جیل میں منتقل کر دیا گیا تھا۔