ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ بھلے عید کی شاپنگ بندہ رمضان سے پہلے کر لے، چاند رات تک کوئی نہ کوئی چیز رہ جاتی ہے، جس کی خریداری کے لیے چاند رات پر بازار جانا لازمی ہوجاتا ہے۔ یہ رونقیں، خواتین اور بچّوں کے دَم سے ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ سینٹر ہوں یا گلی محلّے کی دُکانیں، بڑے بڑے بیوٹی سیلون ہوں یا چھوٹا سا پارلر، ہر جگہ رَش اور خوب رَش۔ حقیقت میں مہندی اور چوڑیاں تو خاص چاند رات کا ہی آئٹم ہیں۔ ہم نے ایک طویل عرصہ وطن عزیز سے دُور پردیس میں گزارا ہے۔ عید اور رمضان کی جو رونقیں پاکستان میں ہوتی ہیں ، اس کی بات کہیں نہیں ہوتی۔
جو مزا اپنوں کے ساتھ مل کر خوشیاں بانٹنے کا ہے، وہ بے مثال ہے۔ اب چوں کہ آخری عشرہ ہے، تو عبادات کے ساتھ ساتھ سحر و افطار کی دعوتیں بھی خُوب ہو رہی ہیں۔ بہت سے احباب اعتکاف میں بیٹھے ہیں۔ ایک بات جو ہم نے محسوس کی وہ یہ کہ اس برس افطار پارٹیوں سے زیادہ سحری پارٹی پر زور رہا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی شہر کے مختلف علاقوں میں سحر و افطار عوام کے ساتھ کرتے رہے۔ انہوں نے گورنر ہاؤس میں بھی عوام کے لیے یہ اہتمام کیا ہوا ہے۔ اُن کی فوڈ اسٹریٹ میں آمد، کڑھائی میں پکوڑنے تلنے، لوگوں کو گورنر ہاوس افطار پر مدعو کرنے کے علاوہ مہندی اور چوڑیوں کے لیے بھی گورنر ہاؤس اوپن کرنے کے چرچے میڈیا پر بہت ہیں۔
چرچے تو خیر فن کاروں کے جھرمٹ کے بھی ہیں، جو شہر کی ایک مشہور سماجی شخصیت واثق نعیم کی جانب سے دی گئی سحری پارٹی میں موجود تھے۔ سمندر کنارے واقع سبزہ زار پر بچھی کرسیاں، چاروں طر ف جگ مگ کرتے برقی قمقمے اور فن کاروں کے ساتھ سیلفی بناتےمداح، ہر طرف بس رونق ہی رونق۔ معروف ٹی وی ایکٹر اور نیّرہ نُور مرحومہ کے شوہر شہریار زیدی، عدنان جیلانی، نادیہ حسین، حسن جہانگیر، کاشف خان، حنیف راجا، عابدہ خانم، روبینہ، مصطفیٰ قریشی،شازیہ کوثر، شبانہ، کوثر، ایوب کھوسہ کے علاوہ گورنر سندھ بھی اس دعوت سحری میں شریک تھے۔
گلوکار حسن جہانگیر سب سے مبارک بادیں وصول کر رہے تھے، حال ہی میں انہیں سول اعزاز حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملا ہے، جس پر وہ بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ عدنان جیلانی جو قربان جیلانی کے صاحب زادے اور کامران جیلانی کے بھائی ہیں ، حال ہی میں لاہور میں ایک ماہ قیام کے بعد کراچی لوٹے ہیں، وہ اپنے کسی عزیز کی شادی کے سلسلے میں لاہور گئے تھے۔ وہ بتارہے تھے کہ کھانے کا مزا تو بس لاہور میں ہی ہے۔ ہم نے اُن سے اُن کے نئے ڈرامے کے متعلق پوچھا تو معلوم ہوا کہ جلد ہی اُن کا ایک نیا پروجیکٹ آنے والا ہے۔
کامیڈین کاشف خان اپنی پوری فیملی کے ساتھ تشریف لائے تھے، اُن کی صاحب زادی ربیکا بہت باصلاحیت ہیں اور سوشل میڈیا پر خاصی متحرک رہتی ہیں۔ سب فن کاروں سے ملے تو گپ شپ بھی لگی، پُرانے دور کے قصّے، پُرانے ڈرامے، پُرانے سپراسٹارز پر بھی گفتگو رہی۔ جنید جمشید کو یاد کیا کہ کیسے جب ’’دِل دِل پاکستان‘‘ پہلی بار ٹی وی پر نشر ہوا تو، کیسے وائٹل سائنز راتوں رات شہرت کی بُلندیوں پر پہنچ گئے، نوجوان گلوکار احمد جہانزیب کا بھی خُوب تذکرہ رہا، لوگ اُن کی گائیکی کی تعریف کر رہے تھے اور ہم یاد کر رہے تھے کہ بہت سال قبل جب اخبارجہاں میں اسد جعفری مرحوم سوشل راؤنڈ اَپ لکھا کرتے تھے، تو اس وقت انہوں نے لکھا تھا کہ ونڈر بوائے ماسٹر احمد جہانزیب نے گلوکاری کے رموز سیکھنے کے لیے اُستاد رئیس خان صاحب کی شاگردی اختیار کر لی ہے اور وہ اُن کے باقاعدہ گنڈابند شاگرد بن گئے ہیں۔ بچپن ہی سے موسیقی کے شعبے سے وابستہ ہونے والے احمد جہانزیب کے گیت’’کہو اک دن‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ گزرتے وقت اور آنے والے نئے فن کار، اُن فن کاروں کے نئے انداز اور سوشل میڈیا پر اُن کے فالوورز کی تعداد فن کاروں کا کسی شو میں پرفارمنس کا معاوضہ اور پروٹوکول بھی طے کرتی ہے۔
اب تو بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے، ایسا نہیں کہ پہلے کے فن کار کم مشہور تھے یا اُن کی صلاحیت کو اُبھرنے کا مناسب موقع نہ مل سکا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اب پیمانہ تبدیل ہوگیا ہے، ہر نیا دور اپنے ساتھ نئے تقاضے لاتا ہے، جس پر جو پُورا اُترے، وہ کام یاب کہلاتا ہے۔ مہدی حسن، نورجہاں، لتا منگیشکر، کشور کمار، محمد رفیع، ہمیشہ ہی موسیقی میں سب سے اُوپر رہے ہیں، حالاں کہ وہ سوشل میڈیا سے پہلے کے فن کار تھے، تاہم اب گلوکار یا اداکار یا کوئی بھی سیلیبرٹی سوشل میڈیا کو اپنی کام یابی کی کنجی سمجھتا ہے۔ ڈیجیٹل دور کے اس مقابلے میں جو تیزی سے دوڑے گا، وہی وقت کی رفتار پکڑ سکتا ہے۔ ہم تو پُرانا وقت بھی دیکھ چکے ہیں، جب نہ موبائل تھا نہ سماجی رابطوں کی اَیپس، نہ نجی چینل تھے، نہ ملین فالوورز کے جھنجھٹ، تاہم اب یہ سب لازم و ملزوم ہیں۔
عید پر کارڈ بھیجنا ہماری روایت تھی، ہر سال دوستوں کو عید کارڈ بھیجتے تھے، ہمیں بھی بہت سے خُوشنما کارڈ موصول ہوتے تھے ، جنہیں ہم سنبھال کے رکھتے تھے، پھر اک ایسا وقت آیا کہ ہم نے اُن کارڈز کی سجاوٹ کی ٹھانی اور ہماری کارڈ گیلری مشہور ہوگئی۔ ایک مرتبہ تو طلعت رئوف نے اخبارجہاں میں ہماری اپنے سینکڑوں کارڈز کے ہمراہ کھینچی تصویر بھی چھاپ دی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ موقوف ہوگیا، اب واٹس ایپ پر چاند کی یا عید کی مبارکباد بھیج دیتے ہیں۔
حال یہ ہے کہ دعوت نامہ بھی واٹس ایپ ہی کیا جاتا ہے، ڈاک کے ذریعے کارڈ بھجوانا ختم ہی ہوگیا ہے، تقریباً شادی بیاہ کے دعوت نامہ تو اچھا ہے واٹس ایپ پر بھیج دیتے ہیں، ایک تو کارڈ فون میں محفوظ رہتا ہے، دوم تاریخ بھی یاد رہتی ہے، بھول جائو تو فون نکال کے چیک کر لو۔ ڈیجیٹل عید کے رنگ پچھلی عیدوں کے رنگوں سے کم گہرے نہیں، یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ دور بہتر تھا، ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف دور تھا۔ اب دَر و دیوار پر کارڈ سجانے کا زمانہ نہیں، اب ٹی وی کے آگے بیٹھ کے چاند نظر آنے کے اعلان کا انتظار کرنے کا زمانہ نہیں۔ آج کا دور صرف موبائل کا دور ہے، جس میں دُنیا سمٹ آئی ہے۔
اب چاہے کیمرہ ہو یا کیلنڈر، ریڈیو ہو یا ٹی وی، کیلکولیٹر ہو یا فون نمبرز کی ڈائری سب کچھ موبائل فون میں محفوظ ہے۔ احباب نے تو اب کلائی میں گھڑی پہننا بھی چھوڑ دی ہے کہ موبائل میں ٹائم دیکھ لیتے ہیں۔ الارم بھی موبائل میں، فلمیں اور ڈرامے بھی موبائل میں، بینکنگ بھی موبائل کے ذریعے سے ہو رہی ہے۔ اور اب خیر ہے کہ مصنوعی ذہانت یعنی Artificial Intelligence کا زمانہ آرہا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں تو اس ٹیکنالوجی کی بدولت ایک اینکر ٹی وی پر جلوہ گر ہیں، جس رفتار سے سائنس ترقّی کر رہی ہے اور نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں توقع ہے کہ سال دو سال میں ہم ٹیکنالوجی کے نئے چیلنجز سے نبردآزما ہو رہے ہوں گے۔