• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنکھوں کی انوکھی چمک اور لبوں کی نرم مسکان ’’خوشی‘‘ کا احساس

خوشی کیا ہے۔۔۔ ؟ صرف ایک لفظ ایک احساس، ایک یاد ۔۔۔ ایک واقعہ۔۔۔ یا پھر خوشی آنکھ کی انوکھی چمک اور لبوں کی نرم مسکان کا نام ہے۔ یہ خوشی نظرآتی ہے ماں کی آنکھوں میں جب اس کا بچہ مسکرائے۔ طالب علم کی آنکھ میں جب بہترین رزلٹ حاصل کرے۔ کھلاڑی کی آنکھ میں جب جیت کا میڈل اس کے سینے پر سجے۔ طبیب کی آنکھ میں جب مریض صحت یاب ہو جائے۔ کسان کی آنکھ میں جب کھیت لہلہائے۔ مریض کی آنکھ میں جب اسے زندگی کی نوید ملے۔

تو پھر یہ خوشی عارضی اور دائمی کیوں ہوتی ہے۔ عارضی خوشی تو ہمیں نیا لباس، اچھا کھانا، نئی گاڑی اور تفریح سے حاصل ہو تی ہے، مگر دائمی خوشی وہ احساس ہے جو ہماری یادوں میں منزہ روشنی بکھیرتا ہے۔ دائمی خوشی سکون قلب کی وہ دولت ہے جو ذہنی اور روحانی آسودگی کا باعث بنتی ہے۔

ہمارا دین ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن پاک میں بارہا یتیم اور مساکین کا خیال کرنے، بھوکے کو کھانا کھلانے اور مسافر کا خیال رکھنے، والدین کی عزت اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کا حکم ہے۔ اور یہ سب کرنے سے عزت، ایمان، صحت، نعمت، رحمت اور خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، جس انسان کے دل میں رحم، احساس میں خلوص اور سوچ میں سچائی ہو، وہ انسان اللہ کی طرف سے مخلوق کے لیے نعمت ہوتا ہے۔ الحمد اللہ ہمارا رب ہر سال ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم عارضی اور دائمی خوشیاں ایک ساتھ حاصل کرسکیں۔ وہ موقع ہے عید سعید، عیدالفطر کا۔

وقت کے ساتھ ساتھ تہواروں میں بھی تبدیلیاں آگئیں ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے چھتوں پر چڑھ کر چاند دیکھنے اور چاند دیکھ کر دعا مانگنے اور مبارک باد دینے کی خوبصورتی کو ختم کردیا ہے۔ اب حکومتی اعلان کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ خوبصورت محبت بھرے عیدکارڈز کا رومانس بھی ختم ہوا۔ بس سوشل میڈیا پر عید مبارک کے میسجز بھیج کر ذمہ داری ختم۔ ہاں چاند رات کی خوبصورت روایات تو ختم نہیں ہوئیں، البتہ تبدیل ضرور ہوگئیں ہیں۔

پہلے چاند نظر آنے کے ساتھ ہی گھر میں خواتین مہمان خانے کی صفائی کے ساتھ چادروں، تکیوں اورکشن کورز کو تبدیل کرکے، دھیمی آنچ پر کھیر پکانے اور شیر خرمہ تیارکرنے کا اہتمام شروع کردیتی تھیں۔ عید کی تمام خریداری پہلے پہلے ہی مکمل ہو چکی ہوتی تھی ،مگر اب چاند نظر آنے کی خبر ملتے ہی لوگ بازاروں کا رُخ کرتے ہیں۔ بازاروں ، مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں ایسی رونق ہوتی ہے کہ میلے کا سماں ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے۔ جہاں خواتین بچے اور بڑے پرمسرت چہروں کے ساتھ عید کی تیاریاں مکمل کر رہے ہوتے ہیں۔

ریڈی میڈ کپڑوں، جوتوں، جیولری اور چوڑیوں کی دکانوں پر خصوصی رش ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کھانے پینے کی دکانوں اور ریستورانوں میں بھی بے تحاشہ رش ہوتا ہے۔ جنہیں کچھ خریداری نہیں کرنی ہوتی وہ بھی تفریح کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیوٹی پارلرز کے باہر تک مہندی لگوانے اور فیشل کروانے کے لیےآنے والی خواتین اور بچیوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ ہر چہرہ عید کے دن روشن اور دمکتا ہوا نظر آنا چاہتا ہے۔ ویسے بھی چوڑیوں کی کھنک اور مہندی کی مہک کے بغیر کوئی عورت کوئی لڑکی عید کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

اس کے ساتھ وہ لڑکے لڑکیاں جن کی ’’بات پکی‘‘ یعنی رشتہ طے ہو چکا ہے۔ ان کے لئے ’’عیدی‘‘ یعنی عید کے تحائف کا تبادلہ بھی ایک خوبصورت روایت ہے۔ کتنی ہی لڑکیاں عید پر میکے کی طرف سے ملنے والی’’عیدی‘‘ کا انتظار بھی کرتی ہیں اور پھر ملنے والے تحائف کو بڑے فخر سے سب کو دکھاتی بھی ہیں۔ عمر کا کوئی بھی حصہ ہو عورت کے لئے ’’میکہ‘‘ ہمیشہ ایک خوبصورت احساس خوبصورت یاد ہی رہتا ہے۔

چاند رات کے سارے رنگ عید کے دن بھی نظرآتے ہیں۔ مہندی کی مہک، چوڑی کی کھنک نئے ملبوسات کی چمک اور مختلف پکوانوں کی خوشبوئوں سے گھر کی فضا مہکی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر رنگ پر انداز انوکھا اور روشن دوستوں اور احباب سے عید ملنا، عیدی دینا اور لینا۔ رشتے داروں سے ملنے جانا اور مہمانوں کو گھر پر مدعو کرناہی تو خوشی کے لمحات کو دوبالا کردیتا ہے۔ ہاں عید کا چاند چہروں پر مسرت اور شادمانی بکھیرتا ہے وہیں یہ چاند کسی کے چہرے پر پریشانی لے آتا ہے۔ 

یہ جو مہندی کا لال رنگ جو ہاتھوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے ،یہ ہی لال رنگ آنسوئوں کوچھپاتی آنکھوں کی سرخی بن جاتا ہے۔ جہاں خوشبو میں بسے لباس سانسیں مہکا رہے ہوتے ہیں وہیں نئے لباس کے نام پرکسی کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ عید کا چاند کہیں چہروں پر دھنک رنگ بکھیرتا ہے تو کہیں چہروں پر تفکر کی لکیریں گہری کر دیتا ہے۔ کہیں دعوتوں کے مکمل انتظامات کا اطمینان تو کہیں عید کے دن مناسب کھانا پکانے کی مشکلات، کہیں نئے لباس کے فخر سے دمکتا رنگ تو کہیں بچوں کے نئے کپڑوں کے انتظام نہ ہو سکنے کے خوف سے پیلا پڑتا رنگ۔ 

یہ جو امیری، غریبی، آسودہ ناآسودہ کے تضادات ہیں ہمیں انہیں ہی تو ختم کرنا ہے۔ دوسروں کوخوش ہونے کا موقع فراہم کرکے ان کی زندگیوں میں آسانیاں لانے کا سبب بن کر بے وسیلوں کا وسیلہ بن کر یتیموں اور محتاجوں کی مدد کرکے، محبتوں کا عہد نبھا کر اپنائیت کا لہجہ اپنا کر روشنی کے خوابوں کی تعبیر بن کر اور اس سے حاصل ہونے والی خوشی کا ہی تو دوسرا نام عید ہے۔ یہ ہماری انفرادی نہیں اجتماعی خوشی کا نام ہے۔ حقیقی اور دائمی خوشی، مسلمانوں کی روایات ہیں کہ وہ عید کی خوشیوں میں غریب رشتہ داروں پڑوسیوں کو شامل رکھیں، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کریں۔

صدقہ فطر کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہم پر لازم ہے کہ صلہ رحمی کے طور پر ان کی اس حد تک مالی مدد کریں کہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے تو وہ ہمارے ہی اختیار میں ہے۔ اس کے لئے ہمیں ہی کوشش کرنا ہوگی۔ یعنی خوشی کے احساس کو حاصل کرنا بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے۔ بس ارادہ چاہئے۔ اخبار اور ٹی وی پر عید کے اشتہارات دیکھیں، کپڑے جوتے، جیولری، کراکری اور گھریلو سجاوٹ کا سامان خریدیں، چاند رات کو بازاروں اور پارلر بھی جائیں عید پر خوب اہتمام سے تیار ہوں لوگوں سے ملیں، دعوتیں کریں، خوب عید منائیں، مگر عید کی حقیقی خوشی حاصل کرنے کی بھی سعی کریں۔ 

اپنے ناآسودہ غریب رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی خیال رکھیں کوشش کریں کہ آپ کی وجہ سے آپ کی آنکھوں جیسی چمک کسی اور کی آنکھوں میں بھی ہو۔ آپ کے لبوں جیسی کھنکتی ہنسی کسی ا ور کے چہرے پر بھی ہو۔آپ کے گھر جیسی پکوان کی مہک کسی اور کے گھر میں بھی ہو۔ آپ کے گھر جیسی روشنی اوررونق کسی غریب کے گھر میں بھی ہو۔ نیکی کا عمل گھر سے شروع کریں، اپنے بچوں کو اس میں شامل کریں، دوسروں کے حقوق ادا کریں تو ہمارے حقوق خود ہمیں مل جائیں گے۔ یوں سوچیں توہم ایک آسودہ اور مثالی معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

سال میں ایک دن کیوں۔ دائمی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے تو سارا سال کوشش کی جاسکتی ہے، پھر ہمارا ہردن عید اور ہر رات چاند رات ہو سکتی ہے بس رمضان میں حاصل کی ہوئی تربیت پر عمل کرکے دیکھیں۔ جب ہم خوش ہوتے ہیں تو زندگی بہتر ہوجاتی ہے۔ لیکن جب دوسرے لوگ ہماری وجہ سے خوش ہوتے ہیں تو زندگی بہترین ہو جاتی ہے یعنی ہر دن ’’عید سعید‘‘ ۔