• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذکیہ اعوان

کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کو بہتری کی طرف لے کر جانے میں نوجوان نسل کو کردار بہت اہم ہوتا ہے اگر وہ اپنی پوری لگن سے ملک کی بہتری کے لیے کام کریں تو یہ بات کسی بھی ملک کی بقا کے لیے بہت معاون ثابت ہوتی ہے لیکن افسوس کہ نوجوان کسی کام کے آغاز میں تو جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ یہ جوش و خروش کم ہوتا جاتا ہے۔ حالانکہ کام کی ابتدا میں کامیابیاں مقدر نہیں بنتیں، کام کو پائے تکمیل تک پہنچانے اور کامیاب ہونے کے لئے انتھک محنت کرنی پڑتی ہے، مگر نئی نسل کا المیہ ہے کہ وہ فی الفور نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے، جب نوجوانوں کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتےتو وہ ہمت ہار کر مایوس ہوجاتے ہیں۔ 

یاد رکھیے! خواب پورے کرنے اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے نیندیں اڑانی پڑتی ہیں۔ بہت سے طالب علم امتحان سے چند روز قبل پڑھائی شروع کرکے یہ سوچتے ہیں کہ کہ وہ نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کرلیں گے، جب رزلٹ آنے پر مایوسی ہاتھ لگتی ہے تو شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری محنت رنگ نہیں لائی۔ حالانکہ انہیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مستقل مزاجی میں پوشیدہ ہے۔ جونوجوان مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ کبھی منزل نہیں پاتے۔ 

ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں، اگرچہ انسانی فطرت میں تبدیلی کی خواہش ہونا نئی بات نہیں، پھر بھی بار بار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں، اس کے بعد ان کی سوچ کا دائرہ اسی بات پر آکر ٹہر جاتا ہے کہ پاکستان میں ان کو روزی کمانے کے وہ مواقع میسر نہیں ،وہ یہاں رہ کر ترقی نہیں کر سکتے۔

وہ اپنی تمام تر طاقت اس ملک کو چھوڑ کر باہر جانے میں لگا دیتے ہیں، ان کےکایہ رویہ ملک کے لیے منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنے پاکستانی ہونے پر فحر کرتے ہوئے یہیں رہ کر اس کی ترقی اور بہتری کے لیے کام کریں تو اس کی عزت میں بھی اضافہ ہو گا۔ کیونکہ ملک کی ترقی اور سلامتی میں نوجوان طبقہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔علامہ اقبال نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا تھا

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کہ جوانوں کی خودی صورت فولاد

علامہ اقبال کے اس شعر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ،اگر دن رات محنت کریں تو ہمیں غیروں کے سامنے قرضوں کی صورت ہاتھ پھیلانے کی قطعا ضرورت نہیں رہے گی اورہم اپنے بل بوتے پر کام کرتے ہوئے ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر انسان اپنے ہی گھر میں آقا ہوتا ہے اسی طرح جب تک ہم اپنے سرزمین پر ہوتے ہیں ہماری حثیت حاکم سی ہوتی ہے جب کہ غیروں کی سرزمیں پر ہم ایک محکوم کی حثیت سے زندگی گزارنے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔

نسلِ نو کو مسلمان ہونے کہ ساتھ ساتھ پاکستانی ہونے پر بھی فخر کرنا چائیے ۔وطن سے محبت صرف جذبات تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارے گفتاراورکردار میں بھی اس کی نمایاں جھلک نظر آنی چائیے۔وطن سے محبت ہم سے اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کے مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں معاشرے میں امن وامان کو پھیلانے کی کوشش کریں ،ظلم وزیادتی کے ہر عمل سے خود کو بچائیں اور معاشرے کے امن کو غارت کرنے والوںکو معاشرے کے لیے ناسور سمجھیں اورانہیں کیفرکردار تک پہنچانے میں حکومت کا ساتھ دیں۔ 

اپنا جائزہ لیں کہ آپ نے اب تک اپنے ملک کے لئے کیا کیا،اس کی ترقی میں کتنا حصہ ڈالا۔ عوامی بہبود کے لیے کیا کام کیے، عوامی بیداری مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے،آج نوجوان نسل کا فرض بنتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے تعلیم اور عوامی بہبود کے میدان میں جو بھی جدو جہد ہو سکتی ہوں، کرنے کاوعدہ کریں۔ کسی صورت میں یہ بات قبول نہ کریں کہ دنیا میں کوئی آپ سے بہتر کام کر سکتا ہے۔ اپنی سوچ اور گفتگو سے نا ممکن کا لفظ نکال دیجئے۔ ترقی پسندبنیں۔

علامہ اقبال کو ضرور پڑھیں جس سے آپ کو اپنی صلاحتیوں کا اندازہ ہوگا، آپ خود پر اعتماد رکھیں اور دنیا سے سکھیں، اگر آپ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی ذات سے نکل کر اپنے علاقے اپنے ملک کا سوچیں، تب ہی آپ اپنی صلاحتیں بروئے کار لا سکتے ہیں۔