• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حافظ بلال بشیر

پوری دنیا میں معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی سیاسی و معاشی فضا ناقابل برداشت حد تک ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں نوجوان ملازمت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، جہاں انہیں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔

کبھی ریاست میں اقتدار پہ براجمان رہنے والے حکمرانوں، پالیسی ساز اداروں نے سوچا ہے کہ نوجوانوں کی کثیر تعداد کے بارے میں نہیں ہر گز نہیں، انہیں تو صرف اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے ۔گر چاہتے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان کوعظیم تر بنائیں، اس کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیں تو صرف اپنی یا اپنے بچوں کی نہیں بلکہ پوری قوم کے نوجوانوں کی فکر کے لیے سوچ کو بدلنا ہوگا۔

بقاء اور سر اٹھا کر جینے کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے، اس کے لئے نوجوانوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ ان پاس انرجی اور خواب ہوتے ہیں، وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن جب انہیں اپنے ملک میں سازگار ماحول نہ ملے تو پھر وہ ایسی ملک کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں بہتر مواقع میسر ہوں۔

روزگار کے بہتر مواقع مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں اور مضبوط معیشت مستحکم سیاسی حالات کے بغیر ممکن نہیں۔ فیصلہ سازوں کی توانائیاں جوڑ توڑ اور عارضی مفادات پر توجہ دینے کے بجائے مضبوط معیشت کی طرف مرکوز ہونی چاہیے تاکہ، نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے، وہ عدم تحفظ کے احساس سے نکل کر ملک کی تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں سے ہم کنار کرائیں۔

خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی

بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی

نوجوانوں کو تخلیقی و پیداواری کاموں میں مصروف رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ زراعت اور صنعت کے شعبوں پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو پاکستان میں روزگار کا مسئلہ مزید سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم تک درآمد کرنا پڑ جاتی ہے۔ اگر زراعت کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا جائے تو نہ صرف معیشت مستحکم ہو گی بلکہ براہ راست نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کھلیں گے۔ اقوام عالم میں بقاء اور سر اٹھا کر جینے کے لئے جو تگ و دو کرنی ہے، اس کے لئے محنت اور منزل کو پالینے کی لگن اور جستجو کا جذبہ چاہیئے، تاکہ عزت و وقار اور خود مختاری کے ساتھ دنیا کے شانہ بشانہ اپنی شرائط اور اپنے قوانین کے ساتھ چلا جا سکے۔

حصولِ پاکستان کا مقصد بھی یہی تھا۔ عزت،خود مختاری اور عروج کے حصول کی خاطر جو عادات و اطوار درکار ہیں ان میں مسلسل اور بھرپور محنت،عزم،ہمت،چستی ،جذبہ ایمانی اور حقیقت پسندی شامل ہیں اور ان تمام عادات کو اپنا کر کام کرنا ضروری ہے، تاکہ اقوام عالم میں اور اس سے بڑھ کر گھر یعنی ملک پاکستان میں خوشحالی اور امن ہو اور ہم عروج کی جانب بحیثیت قوم سفر کریں۔

اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ آئین پاکستان میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جن سے ریاست پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم خود میں نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری پیدا کرلیں اور قوم کے ہر فرد کی فکر کریں۔ اپنی جگہ، اپنے ادارے کام ٹھیک سے شروع کردیں اور محنت کو اپنا شعار بنا لیں ، پوری قوم کے نوجوانوں کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب قوم میں ایسے نوجوانوں کی کثرت ہوگی جو مثبت سوچ کے حامل ہوں گے۔ جو تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہوں گے۔ جو کاروبار کے مواقع دوسرے نوجوانوں کو فراہم کریں گے۔ اور ایسے ہی لوگ قوموں کو ترقی سے ہمکنار کرتے ہیں۔

میں کئی نوجوان دوستوں سے ملا ، موجودہ حالات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔ موجودہ حالات میں بھی نوجوانوں کے دل میں وطنِ عزیز کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا جذبہ موجزن ہے ۔ نوجوان سوچتے ہیں کہ پاکستان کو عظیم بنانے کے لئے ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہو گا۔ قومیں ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں لیکن ہمارے لیے وہ چیزیں اہم نہیں ہیں جن سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ اداروں میں دیانت داری کو فروغ دینا ہو گا ، ہر کام میں شفافیت کے فروغ کے لیے اجتماعی طور پر کردار ادا کرنا پڑے گا۔ 

جب اقتدار، بیوروکریسی، پالیسی ساز اداروں میں کرپشن سے پاک دیانتدار اور ﷲ سے ڈرنے والی نوجوان قیادت ہو گی تو ملک میں بے روزگاری ختم ہو گی، نوکریاں میرٹ پر ملیں گی۔ جہاں قوانین میں شکم ہو گا پارلیمنٹ حرکت میں آئے گی قوانین درست ہوں گے اور پھر عدالتوں میں بھی انصاف کا بول بالا ہو گا جب ہر آدمی کو انصاف ملے گا۔ تو پھر معاشرے میں ہر نوجوان کو مواقع ملیں گے، وطن عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا تبھی ہم ملک کو عظیم بنا سکیں گے۔ کسی بھی ملک کو عظیم تر بنانے کے لیے نڈر، بے خوف ، باکردار اور مخلص نوجوانوںآگے آنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان ﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی نعمتوں میں سے خاص نعمت ہے ۔ اس وطن کے حصول میں ہمارے اجداد نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، جنہیں ہم بھلا نہیں سکتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں۔ اور اپنے ملک کے تمام چینلز سے نمٹنے کے لیے ، ریاست کے نیک عزائم کو کامیاب بنانے کے لئے ایمانداری اور محنت سے کام کریں۔ ہر ادارے میں موجود باصلاحیت نوجوانوں کو اپنے طور پر بھی جھوٹ، بددیانتی، کرپشن کے خاتمے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ آپ جہاں کہیں بھی کام کر رہے ہیں۔ بے

خوف ہو کر خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھ کر برائی، کرپشن کی جڑ کو اکھاڑ پھینکیں۔ جس قوم میں خود اعتمادی آ جاتی ہے وہ قوم ترقی بھی کرتی ہے۔ قوم کے اعتماد کو بحال کرنا ہے، تاکہ عوام ، حکومت اور ادارے مل کر کام کریں اور سب کا مقصد ایک ہی ہو کہ ہمیں اپنے ملک کو عظیم تر بنانا ہے۔