اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) اتحادی حکومت اور اپوزیشن (پی ٹی آئی) کے مابین سپریم کورٹ کی جانب سے عید کے بعد انتخابات کرانے کی تاریخ کا فیصلہ کرنے سے متعلق اختلافات سامنے آگئے ہیں اور بادی النظر میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ روز سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقاتیں اور اس حوالے سے جاری سرگرمیاں منظر پر تو جاری ہیں لیکن اندرون خانہ فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے ارادوں اور عزائم کی تکمیل کیلئے تیزی کے ساتھ ’’ہوم ورک‘‘ مکمل کر رہے ہیں۔
اور صورتحال اتنی گھبمیر ہوگئی ہے کہ مولانا فضل الرحمان جو اپنے آبائی گاؤں میں موجود ہیں وہ ایک طرف تو وزیراعظم اور آصف علی زرداری سے مسلسل رابطے میں ہیں تو دوسری طرف ان کی میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ٹیلی فونک گفتگو کی اطلاعات ہیں جو اس وقت سعودی عرب میں موجود ہیں۔
تناؤ کے ماحول میں تناؤ ختم کرنے کی باتوں کے ساتھ ساتھ جارحانہ بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور عملی اقدامات بھی جس کی تازہ ترین مثال جمعہ کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 کی منظوری کے بل کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا کہنا ہے کہ بل اب قانون کی شکل میں نافذ ہوچکا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ اس صورتحال سے تناؤ میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے جوابی کارروائی اور اپوزیشن کی جانب سے ردعمل بھی سامنے آئے گا۔
دوسری طرف مذاکرات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے 27اپریل کی جو تاریخ دے رکھی ہے موجودہ صورتحال میں اسے چیف جسٹس کیلئے ’’مشن امباسیبل‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے تو ایک اشارے پر ڈھیر ہوجاتی ہے لیکن معاملہ فہمی کیلئے ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کیلئے ہزار جواز ہوتے ہیں۔
ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی درخواستوں کی سماعت کے موقعہ پر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طلبی اور کورٹ میں ہونے والی کارروائی کے بعد مختلف جماعتوں کے راہنماؤں نے علیحدہ علیحدہ میڈیا کے نمائندوں سے جو گفتگو کی تھی اس پر گمان ہوتا تھا کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان تناؤ کی کیفیت میں عدالت کو کامیابی کی حد تک برتری حاصل ہوگئی ہے۔
لیکن یہ تاثر بہت عارضی ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جنہوں نے سپریم کورٹ کی ہدایت کو سرے سے ہی نظرانداز کرتے ہوئے اس کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا پہلے ڈیرہ اسماعیل خان مین ان کی پریس کانفرنس اور پھر اسلام آباد میں بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا۔
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں دھیمے مزاج کی ایسی معاملہ فہم شخصیات موجود ہیں جو موجودہ صورتحال میں مذاکرات کے حوالے سے مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن اصل مسئلہ عمران خان کا ہے جن کے طرز عمل کے باعث ان کی گارنٹی نہ تو کوئی لے سکتا ہے اور نہ ہی دے سکتا ہے صرف اقتدار میں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی یہ خدشہ بدستور موجود رہتا ہے کہ وہ کس وقت اور کس مقام پر ’’یو ٹرن‘‘ لے لیں، اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا موقف بھی درست دکھائی دیتا ہے جس میں وہ عمران خان کو ان کے طرزعمل کے پیش نظر ’’سیاستدان‘‘ تسلیم کرنے سے ہی انکار کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر ان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر کسی طور پر آمادہ نہیں۔