اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) عید کے دوسرے دن پیر کو صرف سیاسی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ کم وبیش ہر شعبہ زندگی اور مکتبہ فکر کے لوگوں میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے اور موضوع بحث بننے والی خبر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کی خوشدامن ماہ جبین نون اور وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی وہ مبینہ گفتگو تھی جو ٹی وی چینلز پر نشریات اور اخلاقیات کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایک بریکنگ نیوز کے طور پر منظرعام پر آئی ہےجس میں چیف جسٹس کی ساس ماہ جبیں نون معروف وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ رافعہ طارق سے کہہ رہی ہیں کہ وہ کمبخت مارشل لا لگانے کو بھی تیارنہیں، جس پر رافعہ طارق کہتی ہیں کہ الیکشن نہیں ہوتے تو پھر سمجھ لیں مارشل لاء لگے گا،’’وہ بالکل تیار ہیں‘‘ یہ نہیں رہ سکتے، بس ختم بات۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی خوشدامن ماہ جبین نون اور وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ رافعہ طارق کی مبینہ آڈیو لیک سے سیاسی ہلچل میں اضافہ ہوگیا،گفتگو میں الیکشن جلد کرانے اور سو موٹو اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان جو سیاسی محاذ آرائی جاری ہے اور 27 اپریل کو اس حوالے سے فیصلہ کن دن قرار دیا جارہا ہے جو اب محض دو دن کی دوری پر ہے اور جس شخصیت نے اس حوالے سے فیصلہ سنانا ہے اس کے ایک قریبی رشتے کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ میں سنی جانے والی گفتگو میں قیافے، اندیشے، خدشات اور فیصلے پر اثرانداز ہونے والے اثرات کے بارے میں سیاستدانوں، حکومتی شخصیات اور سیاسی کارکنوں کی دلچسپی اور بھرپور توجہ دیکھی گئی۔ مبینہ طور پر چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کی ساس کے ساتھ اس گفتگو میں دوسری خاتون ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستگی رکھنے والے معروف قانون دان طارق رحیم کی اہلیہ ہیں، طارق رحیم جو پیپلز پارٹی کے دور میں پنجاب کے گورنر، وفاقی وزیر اور دیگر قابل ذکر حکومتی عہدوں پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ خود خواجہ طارق کی بھی ایک آڈیو منظرعام پر آئی تھی جس میں وہ مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار سے گفتگو میں مریم نواز کا نام لئے بغیر انکے بیان پر مشتعل تھے اور ثاقب نثار صاحب سے کہہ رہے تھے کہ یہ خاتون جو بول رہی ہے اس کو اچھی طرح جواب دینا چاہئے جس کے جواب میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا مجھ میں حوصلہ ہے برداشت کرسکتا ہوں، میں کنفیوز یا پریشان نہیں ہوتا۔ دونوں شخصیات کی فون پر پنجابی زبان میں بے تکلفانہ گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ دونوں کے درمیان دیرینہ اور گھریلو مراسم ہیں۔ سابق چیف جسٹس صاحب بڑے اعتماد سے فرما رہے تھے کہ جب جواب دینے کی ضرورت پیش آئی تو آپ سے کہہ دیں گے مجھے پتہ ہے کہ آپ اسی طرف اسی وقت دھماکہ کردیں گے جس پر خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ ۔ بس مجھے بتا دیجئے جیسا کہیں گے ویسا ہی ہو جائے گا اور آج انہوں نے اپنی بیگم کی چیف جسٹس کی ساس سے گفتگو پر اپنے ردعمل میں ویسا ہی کیا‘ لیکن یہ دھماکہ تو نہیں البتہ چلا ہوا پٹاخہ ضرور تھا۔ خواجہ طارق رحیم نے آڈیو لیک کی مذمت تو بار بار کی لیکن اپنی گفتگو میں ایک مرتبہ بھی اس کی حقیقت کو چیلنج نہیں کیا اور نہ ہی اس بات کی تردید کی کہ آڈیو میں چیف جسٹس صاحب کی ساس سے گفتگو کرنے والی خاتون کی آواز انکی بیگم کی نہیں ہے بلکہ آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں کسی بھی شخصیت کی جانب سے ابھی تک اسے چیلنج نہیں کیا گیا اور اب خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی مبینہ گفتگو جو موجودہ چیف جسٹس صاحب کی خوشدامن کے ساتھ منظرعام پر آئی ہے اور موضوع بحث حالیہ مبینہ آڈیو نے جہاں کئی سوالات اٹھائے ہیں اور اگر واقعی یہ آڈیو درست ہے تو اس میں ہونے والی گفتگو سے کئی سوالات کا جواب بھی مل گیا ہے۔ یہ تاثر بڑی شدت سے موجود ہے کہ عدلیہ عمران خان کے خلاف فیصلوں میں نرم گوشہ رکھتی ہے اور حکومتی اتحاد کے سیاستدان اس ضمن میں بعض واقعاتی شواہد کے حوالے سے یہ بات الزامات کی شکل میں سامنے لاتے ہیں اب اس آڈیو میں خواجہ طارق کی اہلیہ رافع طارق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس سے جو گفتگو کر رہی ہیں اس میں محترمہ ماہ جبین کی لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں ان کی موجودگی کی تصدیق کر رہی ہیں اور یہ بھی فرما رہی ہیں کہ وہاں لاکھوں بندے تھے، ہر شہر میں لاکھوں بندے ہوتے ہیں۔ اب ایک طرف تو اس گفتگو میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چیف جسٹس کی ساس صاحبہ تحریک انصاف سے گہری وابستگی رکھتی ہیں، ان کے جلسوں میں شرکت کرتی ہیں تو لوگوں کے اس تاثر کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ چیف جسٹس صاحب جن سے انکی نسبت ایک اہم رشتے کی شکل میں ہے اور پھر جناب عمر عطا بندیال ایک اعلیٰ حسب نسب کا پس منظر رکھنے والی وضعدار شخصیت ہیں انکی منصبی ذمہ داریوں کے حوالے سے بعض حلقوں کے اختلافات اپنی جگہ لیکن ویسے بھی بیگم کی والدہ کا احترام ہمارے کلچر میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ دوسری طرف خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی اس گفتگو پر جس میں وہ عمران خان کے ہر جلسے کو لاکھوں کا جلسہ قرار دے رہی ہیں ان پر تحریک انصاف سے جذباتی وابستگی رکھنے والی کارکن کا گمان ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی کارکن عمران خان کے جلسے میں سینکڑوں افراد کو ہزاروں اور ہزاروں کو لاکھوں کا جلسہ قرار دیتے ہیں۔ اپنی حالیہ وضاحت میں خواجہ طارق نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بندیال صاحب کے خاندان سے ان کے 70سال پرانے مراسم ہیں۔ اب ان سارے عوامل سے کسی بھی شخص کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خواجہ طارق رحیم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میاں نواز شریف نے انہیں لندن سے فون پر مریم نواز کا مقدمہ لڑنے کیلئے کہا تھا لیکن بقول خواجہ صاحب کے چونکہ اس مقدمے میں مطلوبہ شہادتیں موجود نہیں تھیں اس لئے انہوں نے مقدمہ لینے سے انکار کر دیا۔ یہ بات بھی ناقابل فہم اس لئے دکھائی دیتی ہے کہ اول تو خواجہ صاحب اب بحیثیت قانون داں اتنے فعال نہیں کہ انہیں میاں نواز شریف یہ پیشکش کریں پھر میاں صاحب کے پاس ان کی اپنی جماعت کے علاوہ بھی قابل ترین وکلاء کی ایک فوج موجود ہے تو پھر انہیں خواجہ صاحب کی خدمات کی ضرورت کیوں پیش آئی۔