اسلام آباد(ایجنسیاں/جنگ نیوز) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عدالتی حکم کے ذریعے باربار پارلیمنٹ کی توہین کی جارہی ہے ‘ اقلیتی فیصلہ کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے‘ اسپیکر صاحب محض خط سے کام نہیں چلے گا، سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح کیا ہے‘ قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی میں یہ معاملہ اٹھایا جائےاورتوہین پارلیمنٹ کی کارروائی کی جائے ‘پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن محسن داوڑ نے چیف جسٹس کو سیاسی جماعت کا کارکن قراردیتے ہوئے کہاکہ پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اورچیف جسٹس وساتھی ججز کواس کمیٹی میں طلب کیا جائے ‘وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہناتھاکہ اسٹیٹ بینک عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن کو فنڈزجاری نہیں کرسکتا ‘ہمیں غیرآئینی کام کرنے کو کہاجارہاہے ‘اگر الیکشن تین چارماہ بعد ہوں تو کیاہوجائے گا‘جے یو آئی کی رکن شاہدہ اختر نے کہاکہ ابھی نہیں توکبھی نہیں‘ہمیں پارلیمان کی بالا دستی کیلئے کھڑا ہونا ہوگا‘فیصلے ہم پر مسلط کیے جا رہے ہیں اور طریقہ بھی بتایا جا رہا ہے ،یہ فیصلے نہیں سہولت کاری ہے‘بجٹ ہمارا اختیار ہے کسی اور کا نہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن امیر حیدر خان ہوتی نے کہاکہ ہم نے اس آئین کا ہر حال میں تحفظ کرنا ہے،آئین میں کہاں لکھا ہےممبر ووٹ نہیں کرتاتو گنا بھی نہیں جائیگا؟سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آتا تو اسمبلی برقرار رہتی‘وہ غیر آئینی فیصلہ کس کا تھا،آئین میں کہاں لکھا ہے چار ججز کا فیصلہ نہیں 3 ججز کا فیصلہ ماننا ہے‘کیا وجہ ہے تمام سیاسی مقدمات تین ججز کے سامنے ہی آتے ہیں۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑنے کہاکہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں چارجڈ خرچوں کے علاوہ کوئی بھی رقم کی منظوری دینا معزز ایوان کا اختیار ہے‘آغا رفیع اللہ نے کہاکہ یہ سو موٹو نہیں ساسو موٹو تھا۔سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے ۔ سفید پوش بلڈنگ میں بیٹھا شخص چاہتا ہے ملک میں انارکی ہو،اس کی ہمت نہیں کہ اس ایوان کو ڈکٹیٹ کرے۔تفصیلات کے مطابق بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹوکا کہناتھاکہ آئین کی بات نہ مان کر سپریم کورٹ نے توہین پارلیمنٹ کی ہے۔سارے اداروں کے سربراہ ہوش کے ناخن لیں‘عدلیہ اپنی حد میں آئے اور پارلیمان کو بھی کام کرنے دے‘ ہم پارلیمان کو نظر انداز کرنے کا حکم ماننے کے لیے تیار نہیں‘ یہ جمہوریت کے خلاف ہے‘ہم فیصلہ کریں گے کہ عوام کا پیسہ کہاں خرچ ہوگا۔ ہم صرف پارلیمان کے حکم کے پابند ہیں‘بہتر ہوگا کہ ہمیں مذاکرات کا کہنے والے اپنے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں ‘ اب وقت آگیا ہے کہ زمین پر لکیر کھینچ دی جائے کہ کسی وزیراعظم کو توہین پر فارغ نہیں ہونے دیں گے۔ 90دن میں الیکشن کی شق کو ہم نے نہیں کسی اور نے توڑا اور اس کا سلسلہ پنجاب سے ہی شروع ہوا، سپریم کورٹ اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلہ ثابت کر کے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے، جسے ہم کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔سپریم کورٹ کا کام یہ نہیں کہ آئین میں تبدیلیاں لائے‘ہم آئین کی کسی صورت بھی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، ججز سے استدعا ہے کہ وہ بھی پورے آئین کا مطالعہ کریں‘ بلاول بھٹو نے کہا کہ کوئی ادارہ آئین توڑنے اورپارلیمان کی بات نہ ماننے کا حکم کیسے دے سکتا ہے،یہ پارلیمان چار ججز کے اکثریتی فیصلے کیساتھ کھڑا ہے۔چاہتے ہیں تاریخ میں انہیں اچھے الفاظ میں یاد رکھیں اپنے درمیان ڈائیلاگ کریں۔اپنے خطاب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ عدالتی حکم پرآئین سے انحراف کرکے رقم جاری نہیں کرسکتے‘ایوان میں بیٹھے لوگ کیا غلام ہیں؟ ہم ان پیسوں کی ادائیگی نہیں کرسکتے‘ الیکشن اکتوبر میں ہونے دیں‘ایک ہی روز الیکشن الیکشن ہوجاتے ہیں تو کون سی قیامت آجائے گی‘ ملک ان تماشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا‘آئی ایف ایم کی تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں مگر ایجنڈا کچھ اور ہے۔ فنڈز مل بھی جائیں تو90روز میں الیکشن نہیں ہو سکتے‘ اگر آرٹیکل 63کو ری رائٹ نہ کیا جاتا تو پورے ملک میں الیکشن ایک وقت میں ہوتے، دو اسمبلیوں کی تحلیل سے تمام خرابیوں نے جنم لیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم اس فیصلے کو مانتے ہی نہیں، کابینہ نے کہا فیصلہ 4 ، 3 کا ہے جسے مانتے ہیں، آئین میں ایسا سسٹم نہیں کہ اسٹیٹ بینک خود پیسے جاری کر دے۔ ایوان تین دفعہ اپنا فیصلہ سنا چکا ہے، ایوان کو حق ہے کیا فیصلہ کرنا ہے۔کیا پاکستان ان تماشوں کا متحمل ہوسکتا ہے، پاکستان ایک بدترین معاشی بحران سے نکل رہا ہے، اس بحران کی ذمہ دار ماضی کی حکومت ہے۔