• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی، جمہوری اور عدالتی تاریخ کا آج یادگار دن ہوسکتا ہے

اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) پاکستان کی سیاسی، جمہوری اور عدالتی تاریخ میں فیصلوں کی تاریخ کے حوالے سے آج کا دن بہر صورت یادگار اور انمٹ نقوش ثبت کر جانے کے حوالے سے یادگار ہوسکتا ہے، تاہم وفاقی دارالحکومت کی سیاسی اور حکومتی فضا کے ساتھ ساتھ قرائن اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ بات بگڑ چکی ہے اور حالات دسترس سے باہر نکل رہے ہیں۔

 وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اتحادی جماعتوں کے قائدین کے اجلاس میں کئے جانے والے فیصلوں اور پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی کارروائی کے دوران اراکین پارلیمنٹ کے لب ولہجے سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ آج سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی دھیمے لب و لہجے میں تو ضرور ہوگی لیکن فیصلہ حکومت کے حق میں نہیں ہوگا۔ ا

سلام آباد میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سپریم کورٹ سے اچانک غیرحاضری ایک واضح پیغام تھا جبکہ اتحادی جماعتوں کے قائدین اور بالخصوص قومی اسمبلی میں ہونے والی تقاریر کو بھی ایک خاص تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

 یادش بخیر کہ سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے احکامات کے باوجود جب طاقتور حلقوں کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ تو انہوں نے کردار ادا کرنے کیلئے پیش رفت کی اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ ملک کے طاقتور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور فوج کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اویس دستگیر نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے سپریم کورٹ کی عمارت میں چیف جسٹس چیمبر میں ملاقات کی جہاں فوجی افسران نے مختلف معاملات پر بریفنگ دی اس دوران اٹارنی جنرل عثمان منصور بھی موجود تھے۔

 سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بریفنگ کے دوران فوجی افسران نے ملک کی موجودہ سکیورٹی صورتحال، دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں اور انتخابات میں فورسز کی دستیابی سمیت مختلف امور سے آگاہ کیا۔ لیکن یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ یہ ملاقات تقریباً چار گھنٹے تک جاری رہی اور خبر کے مطابق جن موضوعات پر بریفنگ دی گئی ان کیلئے اتنا وقت ضرورت سے کہیں زیادہ تھا۔

 اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات اچانک نہیں تھی بلکہ پہلے سے طے شدہ تھی۔ جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حال ہی میں دو خواتین کی گفتگو پر مشتمل آڈیو ریکارڈنگ کو منظرعام پر لانے کا فیصلہ اور ٹائمنگ مناسب نہیں تھی اور یہ تجسس ابھی تک برقرار ہے کہ یہ آڈیو ریکارڈنگ کس نے کی تھی کیونکہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی جماعت کے ارکان بھی اس سارے واقعے سے حیرت کے ساتھ لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خدشات کا تبادلہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے تھے۔

اہم خبریں سے مزید