اسلام آباد (انصار عباسی) چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب کے الیکشن کے حوالے سے اپنے سابقہ موقف میں نرمی کی ہے جس کا ممکنہ مقصد اداروں (سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ) کے درمیان کشیدگی کو روکنا تھا۔
بینچ نے پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی کے حوالے سے اپنی طاقت کے مظاہرے کو بھی نظر انداز کیا اور سیاست دانوں کو موقع دیا کہ وہ مذاکرات کریں اور عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے تنازع طے کریں۔
پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کی جانب سے بدھ کو تین رکنی بینچ کے خلاف پارلیمنٹ میں اختیار کیے گئے لب و لہجے کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس کو اشتعال دلانے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو مشورہ دیا کہ وہ اس بات کو نظر انداز کریں اور اس بات کو محض سیاست قرار دیا۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سابقہ موقف سے بھی پیچھے ہٹتے نظر آئے جس میں انہوں نے سیاست دانوں کے مابین مذاکرات کیلئے وقت کی حد مقرر کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کسی مذاکرات کیلئے ہدایت نہیں دے گی اور ڈائیلاگ کے عمل کیلئے کوئی ٹائم فریم بھی مقرر نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے امید ظاہر کی کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کرکے تنازع طے کریں گی۔ چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو تجویز دی کہ وہ مذاکراتی عمل کے معاملات پر تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما نے شکایت کی کہ پی ٹی آئی والوں سے پی ڈی ایم نے مذاکرات کیلئے اب تک رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد میں موقع فراہم کیا لیکن پی ٹی آئی سے حکومت کی جانب سے اب تک رابطہ نہیں کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کریں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ کے اندر اور باہر تنازعات کا شکار رہے۔ ان کی جانب سے پنجاب کے الیکشن پر از خود نوٹس لینے، ایک سیاسی جماعت کے حق میں سیاسی کیسز کے فیصلوں کیلئے ہم خیال ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دینے کی وجہ سے نہ صرف ان پر کئی سیاست دانوں، پارلیمنٹ اور میڈیا نے تنقید کی بلکہ کچھ ساتھی ججز نے بھی تنقید کی۔
اس صورتحال کی وجہ سے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ پارلیمنٹ نے ایگزیکٹو کا ساتھ دیا اور چیف جسٹس کی زیر قیادت تین رکنی بینچ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔
جمعرات کو عدالت کا موُڈ مصالحتی تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔ یہ خبر فائل کیے جانے تک یہ فیصلہ جاری نہیں ہوا تھا۔ عدالت نے سماعت کی اگلی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ سپریم کورٹ میں اس اہم کیس کی سماعت سے ایک دن قبل، قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے ارکان نے عدالت کے تازہ ترین فیصلے کو حیران کن اور خوفناک قرار دیا اور اسپیکر کو تجویز دی کہ معاملہ ایوان کی استحقاق کمیٹی کو بھیجا جائے۔
یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ایوان کا استحقاق مجروح کیا ہے کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ قبول نہ کیا جائے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کیسے وزیراعظم اور ہمیں حکم دے سکتی ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کی جائے اور پارلیمنٹ کا فیصلہ نہ مانا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ حیران کن اور خوفناک ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ پارلیمنٹ کا فیصلہ نظر انداز کر دیں اور سپریم کورٹ کا اقلیتی حکم قبول کریں۔ اسی دن اسپیکر نے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو خط لکھا اور نشاندہی کی کہ آئینی عدالتوں کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے لیکن ان کے پاس یہ اختیارات نہیں کہ آئین کو دوبارہ لکھا جائے یا پارلیمنٹ کی بالادستی کو نقصان پہنچایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئینی شقوں کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ سپریم کورٹ کا اختیار نہیں کہ وہ فنڈز جاری کرنے کا حکم دے، ججز نے آئین کے دفاع اور تحفظ کا حلف لیا ہے۔ خط میں انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اختیار قومی اسمبلی کے پاس ہے جو براہِ راست پاکستان کے عوام کے ذریعے منتخب ہونے والے نمائندوں پر مشتمل ہے۔