پنجاب کے ساتھ سندھ میں بھی پاک فوج کی خدمات حاصل کرنے کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کے گرینڈ آپریشن میں تبدیل ہونے اور ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی کے لیے آئندہ چند روز میں آپریشن مزید تیز ہونے کے امکانات ہیں۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے گزشتہ دنوں سکھر اور لاڑکانہ رینج کے آپریشن والے سرکل کے چار اضلاع کشمور، شکارپور، سکھر اور گھوٹکی کا دورہ کیا۔ پولیس کی آپریشنل تیاریوں اور انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشن کو موثر انداز میں کام یاب بنانے کے لیے حکمت عملی مرتب کی گئی۔ آئی جی غلام نبی میمن نے سکھر گھوٹکی اور کشمور میں پولیس کے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیے اور گھوٹکی میں قائم کی گئی 60 پولیس چوکیوں کا معائنہ کیا، وہاں تعینات افسران اور جوانوں سے ملاقات کی۔
اس موقع پر آپریشن کمانڈر ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو نے آئی جی سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گھوٹکی خاص طور پر رونتی کچے کے علاقوں میں 60 مستقل پولیس چوکیوں کے قیام کے بعد 30 مزید پولیس چوکیاں قائم کرکے ریپڈ رسپانس فورس آر آر ایف کراچی کے جوان تعینات کریں گے، پولیس کی جانب سے گھوٹکی کچے کے جنگلات دریائی جزیروں پر پولیس کمانڈوز کو تعینات کیا جارہا ہے۔ پولیس چوکیوں میں مستقل طور پر ہر چوکی میں 30 جوان جدید اسلحے دوربینوں اور دیگر آلات کے ساتھ 24 گھنٹے موجود رہیں گے ۔ ان اہل کاروں کو 20 ہزار روپے فی اہل کار کچہ الاونس اور ہر اہل کار کو مہینے میں ایک ہفتے چھٹی دی جائے گی، تاکہ چوکیوں میں تعینات افسران اور اہل کار اپنی ہمہ وقت موجودگی کو یقینی بنائیں۔
ان کی حاضری بھی جدید بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے ہوگی، جو اہل کار غیر حاضر ہوگا، اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی، اس وقت چوکیوں کے قیام کے ساتھ کچے کے علاقوں میں جہاں گاڑیوں کی آمدورفت نہیں تھی، وہاں کچے، لیکن پختہ راستے بنائے جارہے ہیں، تاکہ پولیس کی گاڑیاں باآسانی موقع پر پہنچنے کے ساتھ پیٹرولنگ کرسکیں، جب کہ پولیس کمانڈوز پر مشتمل ٹیموں نے ڈاکوؤں کا گھیراؤ کرنے کے لیے دریا کے کنارے پر چوکیاں بنا کر مورچے قائم کردئیے ہیں۔ ایک جانب پنجاب کے سرحدی کچے کے علاقوں میں پاک فوج کی مدد کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی ہے، تو دوسری جانب گھوٹکی اور کشمور کے کچے کے علاقوں جو کہ پنجاب کی سرحد سے ملے ہوئے ہیں، ان میں بھی ٹارگیٹڈ آپریشن تیز کیا جارہا ہے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی گھوٹکی آمد پر آپریشن کمانڈر ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو سے ون ٹو ون مشاورتی ملاقات بھی ہوئی، کیوں کہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن بہ طور ایس ایس پی گھوٹکی ماضی میں ڈاکوؤں کے خلاف کام یاب آپریشن کرچکے ہیں۔ ملاقات میں دونوں افسران کے درمیان آپریشن کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال ہوا اور حکمت عملی مرتب کی گئی۔ تاہم اس اہم ملاقات کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ ملاقات میں کیا طے پایا کسی کو اطلاع نہیں دی گئی۔ آئی جی سندھ نے میڈیا سے بات چیت میں صرف اتنا بتایا کہ آپریشن کے حوالے سے کچھ چیزیں ہیں، جو میڈیا سے شئیر نہیں کرسکتے اور نہ ہی ابھی بتا سکتے ہیں، انٹیلیجنس کی بنیاد پر جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کو تیز کیا گیا ہے۔
گھوٹکی میں 60 کے بعد 30 اور مجموعی طور پر 90 پولیس چوکیوں کا مستقل قیام اور آر آر ایف کے جوانوں کی تعینانی کے ساتھ کچے کے تمام راستوں کو سیل کئے جانے اور ایک راستہ جہاں پولیس موجود ہوگی، وہاں سے آنے جانے والوں پر نظر رکھی جائے گی۔ اس طرح کے اقدامات سے مستقل قیام امن کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ پولیس ڈاکوؤں اور اغوا کاروں، ان کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا مسلسل تنگ کررہی ہے اور وقفے وقفے سے پولیس اور ڈاکووں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی جاری ہے اور پولیس کو مزید جدید اسلحہ اور گاڑیاں بھی جلد فراہم کی جارہی ہیں۔
کشمور سے گھوٹکی تک چار اضلاع کشمور، شکارپور ، سکھر اور گھوٹکی پر مشتمل کچے کے علاقوں دریائی جزیرے اور جنگل میں آپریشن کے لیے آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے ایک اور اہم تبادلہ کردیا ہے۔ سکھر میں ایڈیشنل ایس پی تعیناتی کے دوران ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے اور آپریشن کمانڈر ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کی سربراہی میں کام یاب ٹارگیٹڈ آپریشن کرنے والے ایس ایس پی شبیر سیٹھار کو ایس ایس پی کشمور تعینات کردیا گیا ہے ، ایس ایس پی کشمور عرفان علی سموں کو ایس ایس پی شکارپور تعینات کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق پاک فوج کی خدمات حاصل کرنے کے بعد ان چار اضلاع کے سرکل میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری ٹارگیٹڈ آپریشن نہ صرف تیز بلکہ گرینڈ آپریشن میں تبدیل ہو جائے گا، جس کے لیے پولیس نے اپنے طور پر تیاریاں تیز کردی ہیں ،جب کہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے آپریشن کے حوالے سے آئی جی پنجاب اور آئی جی بلوچستان سے بھی رابطہ کیا ہے۔ سندھ کے چار اضلاع کے کچے کے دریائی سرکل میں بڑے اور گرینڈ آپریشن کا امکان ہے۔
دورے کے دوران سکھر پریس کلب میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایا کہ کراچی میں کرائم کی شرح ماضی کی نسبت کم ہے، اس وقت کراچی ورلڈ کرائم انڈیکس میں 128 ویں نمبر پر ہے ، جب کہ 10 سال پہلے 6 چھٹے نمبر پر تھا، کراچی کی آبادی بہت سارے ملکوں سے زیادہ ہے، یہ کہنا کہ کراچی میں ڈاکو راج ہے، بالکل غلط ہے، کراچی میں کوئی نوگو ایریا نہیں ۔ کراچی میں دنیا کے دیگر بین الاقوامی شہروں تہران، نیو دہلی، ڈھاکا، کابل کے مقابلے میں کرائم کی شرح کم ہے، لیکن اب کراچی میں کوئی نو گو ایریا نہیں رہا ہے، کراچی میں یومیہ 225 کے قریب کرائم کی وارداتیں ہوتی ہیں، زیادہ وارداتیں موٹر سائیکل چوری کی ہوتی ہیں، یہ بھی نہیں ہونی چاہیئں۔
ان کا کہنا تھا کہ تھانے پہلےکرپشن کے پیسوں پر چلتے تھے ، تھانوں کا اپنا کوئی بجٹ نہیں تھا، حکومت سندھ نے کراچی کے تمام تھانوں کو بجٹ دیا، مستقبل میں سندھ کے دیگر اضلاع کے تھانوں کو بھی بجٹ دیں گے۔ کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن بھرپور انداز سے جاری ہے، متعدد کامیابیاں ملی ہیں، 3ماہ میں 30سے زائد ڈاکو مارے گئے ہیں، 60 فی صد جدید اسلحہ کی خریداری کے لیے ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، تاہم 40 فی صد اسلحے کی خریداری کے لیے حکومت سندھ ، وفاقی حکومت سے رابطے میں ہے، اگر 40 فی صد جدید اسلحے کی خریداری کی اجازت نہیں ملی تو پھر کچے میں آپریشن کے لیے پاک فوج اور رینجرز کی مدد لی جائے گی۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ ڈاکو اگر چیلنج کرتے ہیں، تو ہم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، بلکہ مقابلہ کریں گے، پہلے بھی ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا اور اب بھی کریں گے، ڈاکوؤں کی جانب سے اسلحے کی تشہیر کی جاتی ہے، اسے روکنا ہوگا، ڈاکوؤں کی جانب سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا جارہا ہے، ان کے زیر استعمال اکاؤنٹس بند کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کا اس طرح سے شہید ہونا سوسائٹی کا بڑا نقصان ہے۔ میں ان کے ورثاء سے تعزیت کرنے گیا، انہیں یقین دہانی کرائی کہ پولیس ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہرممکن کوشش کررہی ہے ، مجھے اس بات پر خوشی ہوئی کہ ورثا نے کہا کہ ہم نہیں جانتے یہ قبائلی جھگڑا کیا ہوتا ہے ، ہمارا جو نقصان ہونا تھا ہوگیا ،ہم نہیں چاہتے کہ یہ تسلسل آگے بڑھے۔ ہم نے قانون کا راستہ اختیار کیا ہے، قاتلوں کو پکڑنا پولیس کی ذمےداری ہے، میں نے انہیں یقین دلایا کہ ملزمان کو پکڑیں گے، اچھا کیس بنائیں، ہم ڈاکٹر اجمل ساوند کی فیملی کے ساتھ ملکر قاتلوں کو سزا دلوائیں گے۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ پولیس اور صحافیوں کے درمیان اچھا تعلق قائم رہے، کیوں کہ پولیس والا آدھا صحافی اور صحافی آدھا پولیس والا ہوتا ہے، ہماری صفوں میں بھی کچھ خراب لوگ موجود ہیں، تاہم وہ ان کا ذاتی فعل ہے، ہم پولیس کی ویلفیئر کے لیے بھی کام کررہے ہیں، ریپڈ رسپانس فورس نے بہت اچھا کام کیا، حکومت نے رسپانس فورس کی تعداد بڑھائی ہے، پچھلے سال ہم نے 14ہزار اہلکار بھرتی کیے تھے، مزید 5ہزار اہل کار بھرتی کیے جائیں گے، پولیس میں بھرتیوں کا عمل تھرڈ پارٹی کے تحت ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچے میں جاری آپریشن کے حوالے سے مجھ پرکسی قسم کا کوئی دباوٴ نہیں ہے، میں نے اپنے پولیس کیریئر میں دباوٴ برداشت کیا ہے اور نہ کروں گا۔ پولیس کچے میں ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کےخلاف کارروائی کررہی ہے۔ جدید اسلحہ ملنے کے بعد آپریشن مزید تیز ہوگا۔