اسلام آباد (انصار عباسی) نیب نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے تقریباً 50 ارب روپے کے احسان کے بدلے ایک پراپرٹی ٹائیکون سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سیکڑوں کنال اراضی کے مبینہ حصول کی عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر کے خلاف انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا ہے۔
نیب، جو کہ اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال، مالی فوائد اور برطانیہ سے موصول ہونے والی جرائم کی رقم کی وصولی میں اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی اور عمران خان اور دیگر کے خلاف عوامی ریکارڈز کو عوام کے لئے ناقابل رسائی بنانے کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا، کو انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کرنے کے لئے مناسب مواد مل گیا ہے۔
کرپشن کیسز میں نیب ریفرنس دائر کرنے سے پہلے عام طور پر تین مراحل پر عمل کرتا ہے۔ پہلا مرحلہ شکایت کی تصدیق ہے۔ اگر شکایت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو دوسرے مرحلے کے طور پر انکوائری کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس مرحلے پر اگر مزید آگے بڑھنے کے لئے تسلی بخش شواہد دستیاب ہو جائیں تو انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ ورنہ انکوائری بند کردی جاتی ہے۔
انویسٹی گیشن کے مرحلے میں ملزمان سے براہ راست تفتیش کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر انہیں پوچھ گچھ کے لئے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے تاکہ آخرکار یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ یہ مقدمہ عدالت میں چلنے کے قابل ہے یا نہیں۔
نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں عمران خان، بشریٰ بی بی، بیرسٹر شہزاد اکبر اور ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے خلاف انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال جون میں موجودہ حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ایک ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر سے 50 ارب روپے کی لانڈر کی گئی رقم کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے ان کے ٹرسٹ کے لئے اربوں روپے کی اراضی حاصل کی تھی جس کی شناخت پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران برطانیہ نے کی اور ملک کو واپس کیا تھا۔
الزام لگایا گیا کہ عمران خان نے 3 دسمبر 2019 کو کابینہ کے اجلاس میں اس کے اراکین کو اسے پڑھنے کی اجازت دیئے بغیر ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حق میں برطانیہ سے واپس آئی رقم کے تصفیے کی منظوری لی تھی اگرچہ ان میں سے کچھ نے وضاحت طلب کی تھی۔ موجودہ حکومت کے الزامات کے بعد کنگسلے نیپلے، قانونی فرم جو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کی نمائندگی کرتی ہے، نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر نے اسے انتہائی افسوسناک سمجھا کہ حکومت پاکستان نے 2019 میں طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے پر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور مخالف فریقین دونوں کو دیئے گئے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی۔
بیان میں کہا گیا کہ این سی اے کے ساتھ خفیہ معاہدہ سول کارروائی سے پیدا ہوا اور کوئی بھی تجویز کہ خفیہ معاہدہ کسی بھی طرح سے غلط ہوتا، بے بنیاد ہوتا تو بصورت دیگر این سی اے اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر اس بات کی تصدیق کرنا چاہتا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین اخلاقی معیارات کو برقرار رکھے گا اور اپنے کلائنٹس کو شاندار خدمات فراہم کرے گا۔
معاہدے کی خفیہ نوعیت کے پیش نظر اس معاملے پر مزید کچھ کہنا نامناسب ہوگا۔ بعد ازاں نیب نے انکوائری شروع کرتے ہوئے عمران خان حکومت کے تقریباً تمام کابینہ ارکان کو طلب کرلیا جنہوں نے 3 دسمبر 2019 کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما نیب کے سامنے پیش ہوئے لیکن زیادہ تر نے نیب نوٹسز کو نظر انداز کیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لئے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لئے ڈونر بن گیا۔ 3 دسمبر 2019 کو ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے تین ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات (اے ایف اوز) اور نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو رقوم کی واپسی سے متعلق معاملہ اٹھایا۔
بعد ازاں اسلام آباد کے سب رجسٹرار آفس میں ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن کے چند ماہ کے اندر جہلم میں 460 کنال اراضی خرید کر زلفی بخاری کے نام منتقل کر دی گئی۔ اسٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں زمین کی قیمت 243 ملین روپے مقرر کی گئی۔ ٹرسٹ کی تخلیق کے بعد یہ زمین زلفی بخاری نے ٹرسٹ کے نام منتقل کردی۔
مارچ 2021 میں زمین کے اس عطیہ کے ساتھ دیگر عطیات جیسے انفرا اسٹرکچر اور دیگر دفعات کا اعتراف بشریٰ بی بی اور ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے درمیان عمران خان کی رہائش گاہ پر ہونے والے معاہدے کے ذریعے کیا گیا جبکہ خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔