عالمی سطح پر کئی دن منائے جاتے ہیں، جیسے عالمی یومِ صحت، انسانی حقوق کا عالمی دن، یومِ مزدور، سیّاحت کا عالمی دن، ماؤں کا عالمی دن، کتابوں کا عالمی دن، ذیابطیس کا عالمی دن، دانتوں کی صحت کا عالمی دن وغیرہ۔دراصل یہ ایّام کسی ایسے عمل اور رجحان سے متعلق منائے جاتے ہیں جو مثبت، صحت مند اور خوش گوار زندگی کے لیے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور شاید صحت سے متعلق عالمی دن سب سے زیادہ منائے جاتے ہیں اور منانے بھی چاہئیں کہ دنیا کی رونقوں اور لذّتوں کا اصل انحصار اچھی، پائے دار صحت ہی پر ہے۔
صحت اچھی ہو، تو ہر دن عید ہے، چہار سُو خوشیاں اور شاد مانی ہے، وگرنہ ایک بیمار شخص تو خوشی کے مواقع سے لُطف اندوز ہونے کی بجائے گھر اور اسپتال ہی کے درمیان چکراتا رہتا ہے۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ صحت اور اسپتالوں کی بات ہو اور نرسز اور نرسنگ کا ذکر نہ ہو۔ نرسنگ کا شعبہ دنیا کے ترقّی یافتہ ممالک سے لے کر پس ماندہ ممالک تک، ہر مُلک میں کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے۔ یہ شعبہ، درحقیقت عالمی محبّت اور بھائی چارے کا ایک استعارہ ہے۔قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک کی جہاں انسانی ہم دردی اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت مادی اشیاء سے مدد کی جاتی ہے، وہیں خلوص اور خدمت کے احساس سے سرشار نرسز بھی وہاں بھیجی جاتی ہیں۔
نرسز قربانی، مہارت اور احساس کا ایک بہترین امتزاج ہے۔دنیا کے تمام ممالک اپنی نرسز کو فرنٹ لائن سولجرز کا درجہ دیتے ہیں اور نرسز نے بھی عمومی طور پر اور خصوصاً کووِڈ وبا کے دنوں میں یہ کردار بخوبی نبھایا اور ثابت کیا کہ حالات کتنے ہی خراب، خوف ناک کیوں نہ ہوں، وہ اپنے اُس عہد کو پورا کرتی ہیں، جو اس شعبے کا حصّہ بنتے وقت لیا جاتا ہے۔ مختلف عالمی سرویز کے مطابق، نرسنگ کا شمار دنیا کے بہترین اور قابلِ اعتبار شعبوں میں ہوتا ہے۔کسی مُلک کی اپنے عوام کی صحت سے متعلق سنجیدگی کا اندازہ اس کے شعبہ نرسنگ کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو نرسز کی کمی کا سامنا ہے، مگر دست یاب نرسز اس کمی کو مریضوں کی دیکھ بھال میں رکاوٹ نہیں بننے دیتیں۔
مہذب اور عوام دوست ممالک میں اس شعبے کو بہت عزّت دی جاتی ہے اور نرسز کو احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔تاہم، بدقسمتی سے ترقّی پزیر ممالک میں نرسز کو وہ مقام اور حیثیت حاصل نہیں، جس کی وہ مستحق اور حق دار ہیں۔ ہر مُلک میں اِس شعبے کی نگرانی اور کارکردگی میں بہتری کے لیے ریگولیٹری باڈیز موجود ہیں، جب کہ عالمی سطح پر نرسنگ کے یک ساں معیار کے لیےانٹرنیشنل کاؤنسل آف نرسز(International Council of Nurses ) یعنی ICN کے نام سے ایک بین الاقوامی نرسنگ تنظیم بھی موجود ہے۔ یہ کاؤنسل130 سے زاید قومی نرسز ایسوسی ایشنز کی فیڈریشن ہے، جو دنیا بَھر کی28 ملین نرسز کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کا قیام 1899ء میں عمل میں آیا۔
آئی سی این نرسنگ کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے دنیا کی پہلی اور متفّقہ بین الاقوامی تنظیم ہے، جس کا ہیڈ کوارٹر جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں ہے۔بین الاقوامی سطح کی اِس کاؤنسل کا سارا انتظام کوالی فائیڈ اور تجربہ کار نرسز نے سنبھالا ہوا ہے، جب کہ اس کاؤنسل کے منشور کے بنیادی نکات میں٭سب کے لیے نرسنگ کی معیاری سہولتیں٭عالمی سطح پر صحت کی درست اور بروقت پالیسیز کا یقینی نفاذ٭نرسنگ کے تعلیمی نظام کی عصری ضروریات کے مطابق ترقّی وترویج٭ نرسنگ کو ایک قابلِ احترام پیشے کے طور پر متعارف کروانا اور٭ ایک قابل اور ہنر مند نرسنگ ورک فورس کی تشکیل شامل ہیں۔
آئی سی این قومی، علاقائی اور بین الاقوامی نرسنگ اور شعبۂ طب کی غیر نرسنگ تنظیموں کے ساتھ مضبوط روابط کو بہت اہمیت دیتی ہے، کیوں کہ نرسنگ کے شعبے کے باہمی روابط سے بین الاقوامی سطح پر مثبت تعلقات استوار کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔یہ کاؤنسل، اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام خصوصی ایجینسیز کے ساتھ کام کرتی ہے، جن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف نمایاں ہیں۔اِن تمام اداروں میں نرسز کی موجودگی بنیادی صحت کے حصول کے لیے نہایت اہم ہے۔
اس کے علاوہ، آئی سی این متعدّد بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ بھی مشترکہ منصوبوں پر کام کرتی ہے اور یہی کاؤنسل ہر سال نرسز کا عالمی دن( یاد رہے، ہر سال 12 مئی کو’’ انٹرنیشنل نرسز ڈے‘‘ منایا جاتا ہے) ایک خاص تھیم کے تحت مناتی ہے، جیسا کہ 2023 ء کے لیے اِس کا تھیم’’ہماری نرسز، ہمارا مستقبل‘‘( Our Nurses Our Future)ہے۔یہ ایک عالمی سالانہ آگاہی مہم ہے، جو یہ طے کرتی ہے کہ نرسنگ کے شعبے میں کیا جدّت لائی جانی چاہیے تاکہ دنیا بَھر میں صحت کے چیلنجز سے نمٹنا اور سب کے لیے صحت کا حصول بہتر اور آسان بنایا جا سکے، خصوصاً وبائی امراض سے نمٹنے اور بچاؤ کے مستقل اقدامات کیے جاسکیں۔
پھر نرسز کا عالمی دن منانے کا ایک مقصد اُن کی بے لوث خدمات اور جذبے کو سراہنا بھی ہے، مگر اب یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اس دن نرسز کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ، ایک انسان اور معاشرے کے کار آمد فرد کے طور پر اُن کے بنیادی حقوق بھی اجاگر کیے جائیں۔کوئی شخص خواہ کسی بھی رنگ، نسل اور خطّے سے تعلق رکھتا ہو، اُس کی عزّت اور جان کی حفاظت سب پر لازم ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، جس کے منفی اثرات نرسنگ جیسے پُر امن اور خدمت گار شعبے پر بھی مرتّب ہو رہے ہیں کہ مریضوں یا اُن کے لواحقین کی جانب سے نرسز پر تشدّد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اِس سلسلے میں عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) نے’’ہیلتھ ورکرز سیفٹی‘‘ کے نام سے ایک چارٹر تشکیل دیا ہے اور آئی سی این نے عالمی ادارۂ صحت کے اِس چارٹر کا خیرمقدم کرتے ہوئے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اس ہیلتھ ورکرز سیفٹی چارٹر پر دست خط کریں اور اسے اپنے مُلک میں نافذ کرکے نرسز کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آئی سی این کی رپورٹ کے مطابق’’اگرچہ نرسز کو دورانِ ڈیوٹی وبائی امراض سے بچانا اوّلین ترجیح ہے، مگر مختلف ممالک اُنھیں تحفّظ فراہم کرنے میں ناکام رہے، یہاں تک کہ کووِڈ وائرس سے1000 سے زاید نرسز ہلاک ہوئیں۔‘‘
آئی سی این کے ایک اعلیٰ افسر، ہاورڈ کیٹن نے کہا کہ’’ہماری رپورٹ نے دنیا بَھر میں نرسز اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنان، یعنی ہیلتھ کیئر ورکرز کو درپیش خطرات کی تصدیق کی ہے۔ اِن ورکرز کے لیے دَورانِ ملازمت ذاتی حفاظتی سامان کی کمی کا مسئلہ اب بھی موجود ہے، طبّی عملے کے معمول کے مطابق ٹیسٹس نہیں ہوتے اور وہ تشدّد اور امتیازی سلوک کا بھی شکار ہیں۔دنیا بَھر کی حکومتیں نرسز اور دیگر عملے کو وبائی امراض کے اثرات سے بچانے میں سُست یا ناکام رہی ہیں اور اِسی وجہ سے ہم(نرسنگ کاؤنسل) تمام حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عالمی ادارۂ صحت کے چارٹر پر دست خط کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کریں۔‘‘
واضح رہے، ڈبلیو ایچ او کے پیش کردہ چارٹر میں آئی سی این کی بہت سی سفارشات شامل ہیں، جن میں طبّی عملے پر تشدّد اور بدسلوکی کے خلاف zero tolerance پالیسی پر سختی سے عمل، ڈیوٹی کے دَوران تناؤ میں کمی کے اقدامات، ڈیوٹی اور نجی زندگی کے درمیان توازن میں بہتری اور صحت کے تحفّظ کے لیے درکار تمام آلات اور سہولتوں کی دست یابی وغیرہ شامل ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق’’دنیا میں پہلے ہی نرسز کی شدید کمی ہے، تو ہم مزید نرسز کھونے کے متحمّل نہیں ہوسکتے، خاص طور پر عالمی وبائی امراض کے عروج کے موقعے پر تو بالکل بھی نہیں، لہٰذا حکومتوں کو شعبۂ صحت کے عملے کی ہر طرح کی حفاظت کو اپنی ترجیحات میں رکھنے کا عہد کرنا چاہیے۔‘‘ عالمی ادارۂ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیلتھ ورکرز سیفٹی اصل میں مریض کی بہتر خدمت اور علاج کے لیے ایک بنیادی اصول ہے۔ انٹرنیشنل کاؤنسل برائے نرسز اور عالمی ادارۂ صحت اِس امر پر متفّق ہیں کہ ہیلتھ ورکرز کی حفاظت اور مریضوں کی حفاظت سکّے کے دو رُخ ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل ہے۔
ہم دنیا کے جس خطّے میں رہتے ہیں، وہاں نرسز کے مسائل دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہیں، خصوصاً ہمارے یہاں نرسنگ کے شعبے کا کوئی پُرسانِ حال نہیں، بلکہ یہ مقدّس شعبہ گزرتے وقت کے ساتھ تنزلّی ہی کا شکار ہے اور اس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری سطح پر انٹرنیشنل نرسز ڈے کے موقعے پر مکمل خاموشی چھائی رہتی ہے اور نرسزز کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی پروگرام تک منعقد نہیں کیا جاتا۔ پاکستانی نرسز کی ایک بڑی تعداد بیرونِ مُلک بھی خدمات انجام دیتی ہے، جو مُلک کی نیک نامی کے ساتھ قیمتی زرِ مبادلہ کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں۔ اگر حکومت اُن کے مسائل کے حل کی طرف توجّہ دے، تو وہ زیادہ بہتر طور پر مُلک و قوم کی خدمت کرسکیں گی۔
ہمارے ہاں نرسز عدم تحفّظ کا شکار ہیں۔ ہراسانی اور تشدّد کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ جہاں لوگ اپنے سگے مریضوں کو لاوارثوں کی طرح چھوڑ جائیں یا بیمار ہونے کے خوف سے اُن کے قریب نہ آئیں، وہاں نرسز ہی ان بے آسرا اور لاوارث مریضوں کو اپنا سمجھ کر اُن کا خیال رکھتی ہیں۔ پھر ہمارے ہاں نرسز سے متعلق منفی امیج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی ایک وجہ بہت حد تک میڈیا کا غیر ذمّے دارانہ رویّہ بھی ہے، جو اُنھیں اکثر اوقات غیر ذمّے دار اور نااہل عملے کے طور پر پیش کرتا ہے، حالاں کہ یہ حقیقت کے بالکل منافی ہے۔
علاوہ ازیں، نرسز کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت کی ذمّے داری ہے کہ اِس اہم اور بنیادی شعبے کی زبوں حالی کی طرف فوری توجّہ دے اور نرسز کے مسائل کے حل کے لیے ایک مربوط، منظّم، ٹھوس لائحۂ عمل بنائے تاکہ وہ کسی خوف و خطر کے بغیر عوام کو بہتر طور پر خدمات فراہم کرسکیں۔