• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان کی فلمی صنعت کا کامیاب اداکار ’’یوسف خان‘‘

پاکستان کی فلمی صنعت میں بہت قابل قدر اور بڑی شخصیات نے اپنی فنی خدمات سے اس صنعت کو ایسا مقام دیا، جس پر پہنچ کر اس صنعت نے ایک دور میں ہمسایہ ملک کی بڑی فلمی صنعت کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔ ہمارے خُوب صورت، حسین چہرے اور فن کار دیکھ کر بھارتی فلم ساز یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ کاش اس قدر باصلاحیت اور خوبرو چہرے ہمارے یہاں بھی ہوتے۔ ایسے حسین چہروں میں ہیروئنز اور ہیروز کی ایک بڑی تعداد ہے، ان ہی میں اداکار یوسف خان کا شمار بھی ہوتا ہے۔ وہ اس قدر حسین و جمیل تھے کہ اپنے نام یوسف کے صحیح حق دار کہلاتے۔ 

یوسف خان اپنی ذات میں ایک نہ صرف انجمن تھے، بلکہ وہ ایک علم و ادب کی درس گاہ بھی تھے۔ ادب، شاعری اور تاریخ کے وہ بہت بڑے دلدادہ تھے۔ اپنے علم اور تجربے سے وہ اپنی محفل میں شامل لوگوں کو سرفراز کرتے رہتے تھے۔ انصاف پسندی، صلح جوئی ان کی طبعیت کا خاصا تھا۔ ان کی شخصیت کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ وہ ہمیشہ دوٹوک بات کرتے تھے۔ وہ پیدائشی مسلم لیگی تھے اور کبھی اپنے سیاسی نظریات سے نہ بدلے۔ وہ بھارتی فلموں کے پاکستان میں سب سے زیادہ مخالف تھے، صرف زبانی کلامی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی انہوں نے ثابت کر دکھایا، جب پاکستان دشمن اور متعصب بھارتی اداکار منوج کمار پاکستان آئے، تو ایورنیو اسٹوڈیو میں ان کے لیے ہونے والے استقبالیہ کی مخالفت بیانگ دہل کی تھی، جس سے وہ پروگرام منسوخ ہوگیا تھا۔ 

وہ بھارتی فلموں کو پاکستانی معاشرے اور ثقافت کے لیے تباہ کن ہتھیار سمجھتے تھے۔ وہ اپنے اس اصولی اور نظریاتی موقف پر مرتے دم تک ڈٹے رہے۔ فلمی صنعت کے بلاشہ مرد آہن تھے۔ سلور اسکرین کی مقبول ترین شخصیت ہونے پر انہیں کبھی غرور نہ تھا۔ فلم کے اسکرین کے علاوہ وہ کبھی ٹی وی اور کسی اور میڈیا پر نظر نہیں آئے۔ انہیں انٹرویو وغیرہ سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ پُورے فلمی کیریئر میں شاید کوئی انٹرویو انہوں نے دیا ہو۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے صحافیوں اور چینلز کو وہ معذرت کرتے تھے۔

یوسف خان ایک اعلیٰ اور تعلیم یافتہ گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد خان نواز خان تقسیم سے قبل یوپی پنجاب کے ضلع فیروز پُور کے ایک نامور بیرسٹر تھے۔ بیرسٹر نواز خان کے گھر10اگست1931ء کو ایک حسین و جمیل بچہ پیدا ہوا، جس کی خُوب صورتی کو دیکھتے ہوئے والدین نے اس کا نام یوسف رکھا، جب وہ جوان ہوا، تو فلمی صنعت میں یوسف خان کے نام سے مشہور ہوا، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں فیروز پور میں حاصل کی، یہ وہ دور تھا۔

یوسف خان کی عمر اس وقت16برس تھی، جب پاکستان بنا، آگ اور خون کا جو فساد پورے پنجاب اور ہندوستان میں ہوا، اس کے دلخراش مناظر خان صاحب کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ آنکھوں میں خون کی سرخی لیے خان صاحب اپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پورے سے لاہور ہجرت کرکے آگئے۔ ان کے والد کو گھوڑے، پرندے اور دیگر جانور پالنے کا شوق تھا۔ یہ شوق خان صاحب کو اپنے والد سے ملا تھا، جب وہ پاکستان آئے تو وہ تمام قیمتی پرندے، گھوڑے وہاں چھوڑ دیے، خان صاحب نے ضد کرکے کبوتر کا ایک جوڑا ہجرت کے وقت اپنے ساتھ لے لیا۔ 

لاہور کرشن نگر میں یہ گھرانہ آباد ہوگیا۔ اپنے والدین کی واحد نرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے خان صاحب بڑے لاڈ، پیار میں جوان ہوئے، کبوتر کے ایک جوڑے سے سیکڑوں کبوتر اپنے مکان کی چھت پر پالنے شروع کردیے اور اس دور میں لاہور کے چند نامور اور بڑے کبوترباز مشہور ہوگئے تھے۔ زندگی کی تمام آسائشیں انہیں قدرت نے دے رکھی تھی۔ ان کے والد نواز خان، لاہور ایٹ بار کے ایک عہدے پر فائز ہوگئے تھے۔ یوسف خان نے لاہور آنے کے بعد اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ لاہور کی اسلامیہ ہائی اسکول سے میٹرک کی، اسی اسکول میں ان دنوں معروف انقلابی مصنف ریاض شاہد بھی زیر تعلیم تھے۔

دونوں ایک دوسرے کے کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے دوست بھی بن گئے۔ حسن اتفاق سے دونوں نے فلمی صنعت میں وقار اور عظمت کے ساتھ اپنا نام روشن کیا، ریاض شاہد نے بطور فلمساز اور ہدایت کار جب اپنی پہلی فلم ’’سسرال‘‘ بنائی تو اس میں یوسف خان کو بہ طور ہیرو ایک کبوتر باز کا کردار دیا، جو ان کی اصل زندگی کا عکاس تھا۔ ان کے پاس بہت نایاب اور قیمتی کبوتر تھے، جنہیں وہ بہت پیار کرتے تھے، کبوتر بازی کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہ دے پائے، ان کے والد نواز خان انہیں بیرسٹر بنانا چاہتے تھے، تقدیر نے انہیں ایکٹر بنادیا، تو والد برہم ہوگئے تو خان صاحب نے برجستہ اپنے والد کو بتایا کہ آپ مجھے بیرسٹر بنانا چاہتے تھے اور میں ایکٹر بن گیا، دونوں لفظوں میں آخر تو ٹر آتا ہے، جو ٹر آپ بنانا چاہتے تھے، وہ نہ بن سکا مگر پھر بھی ٹر تو بن ہی گیا، یہ دل چسپ الفاظ اور مکالمہ سن کر ان کے والد نے انہیں خوشی سے گلے لگالیا۔

مردانہ وجاہت اور خوب صورتی کو دیکھ کر فلم سازوں نے انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کرنا شروع کردیا۔ اداکار بننے سے قبل وہ جب کبھی لکشمی چوک جاتے تو فلم کے لوگ انہیں دیکھ کر کہتے یار، لڑکا تو بنا بنایا ہیرو ہے۔

1954ء میں فلم ساز و ہدایت کار اشفاق ملک نے یوسف خان کو دیکھ کر یہ بات کہی تھی اور جس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے اپنی فلم ’’پرواز‘‘ میں اپنے وقت کی سپر اسٹار صبیحہ خانم کے مقابل ہیرو کاسٹ کرلیا تھا۔ اپنی پہلی فلم ’’پرواز‘‘ سے فلمی سفر کا آغاز کرنے والے یوسف خان نے ابتدائی دورمیں چند اور فلموں میں بہ طور ہیرو اور سائیڈ ہیرو اپنی فنی صلاحیتوں کا اظہار بڑی کام یابی سے کیا۔ ان کے اسکول کے دور کے دوست ریاض شاہد نے جب اپنی پہلی تصنیف فلم کے لیے ’’بھروسہ‘‘ کے نام سے تحریر کی تو اس میں یوسف خان کے لیے ایک زبردست کردار لکھا جوکہ فلم میں بے حد پسند کیا گیا، یہ منفی کردار تھا۔

1973ء کی بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’ضدی‘‘ کے ٹائٹل رول میں ہدایت کار اقبال کاشمیری نے یوسف خان سے اس قدر بہترین کردار کروایا کہ یہ کردار ان کے فلمی کیریئر کا اس وقت سب سے بڑا اور ناقابل فراموش کردار ثابت ہوا۔ اس فلم میں اداکارہ نبیلہ نے ان کی والدہ کا رول کیا تھا۔ دونوں آرٹسٹ فن کی بلندیوں پر نظر آئے۔ ’’ضدی‘‘ میں لاجواب کردار نگاری کے اعتراف پر انہیں سال کے بہترین اداکار پنجابی فلم کے ضمن میں نگار ایوارڈ دیا گیا۔

1974ء میں ریلیز ہونے والی ایکشن پنجابی فلم ’’خطرناک‘‘ میں ان کی کارکردگی بہت اعلیٰ رہی، اداکارہ نیلو نے دوبارہ اس فلم سے فلمی صنعت جوائن کی تھی۔ یوسف خان کی ہیروئن بن کر وہ ایک بار پھر دوبارہ ہٹ ہوگئی تھی۔ ’’خطرناک‘‘ وہ واحد پنجابی فلم تھی، جس نے کراچی شہر میں ڈائمنڈ جوبلی منائی تھی، سو ہفتے چلنے والی یہ اب تک کی پہلی اور آخری پنجابی فلم ہے، اس کا ریکارڈ آج تک کوئی دوسری پنجابی فلم بریک نہیں کرسکی۔ اسی سال نمائش ہونے والی ہدایت کار جعفر بخاری کی معاشرتی اردو فلم ’’جواب دو‘‘ میں یوسف خان نے اپنی بہترین اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیت لیے۔ اس فلم میں درپن اور زمرد نے مرکزی کردار کیے تھے ، جب کہ یوسف خان کا کردار کہانی کی بنیاد تھا۔

اردو فلموں کے حوالے سے اداکار یوسف خان کی کاکردگی کا تجزیہ کریں، تو ہدایت کار انور کمال پاشا کی ’’محبوب‘‘ ہدایت کار جمیل اختر کی ’’خاموش رہو‘‘ ہدایت کار منور رشید کی کاسٹیوم فلم ’’الہلال‘‘ ہدایت کار ہمایوں مرزا کی ’’دل بیتاب‘‘ ریاض شاہد کی ’’زرقا‘‘ اور ’’غرناطہ‘‘ حسن طارق، شریف نیئر، احتشام کی ’’ایک تھی لڑکی‘‘ اقبال یوسف کی ’’ٹکرائو‘‘ حیدر چوہدری کی ’’ایکسیڈنٹ‘‘ کا شمار ان کے فنی کیریئر کی یادگار اردو کام یاب فلموں میں ہوتا ہے۔

یوسف خان نے اپنی پہلی فلم پرواز میں بطور ہیرو صبیحہ کے مقابل کام کیا۔ 1958ء میں ہدایت کار منشی دل کی رومانی، نغماتی کام یاب فلم ’’حسرت‘‘ میں انہوں نے صبیحہ کے بیمار شوہر کا کردار کیا تھا، جسے تپ دق ہوجاتی ہے۔ سنتوش کمار نے اس میں ہیرو کا کردار کیا تھا، جو ایک ڈاکٹر کا کردار تھا۔ اسی کہانی کو بعد میں شباب کیرانوی نے ’’انسانیت‘‘ کے نام سے فلمائی، جس میں طارق عزیز، زیبا اور وحید مراد نے بالترتیب یہ کردار نبھائے تھے۔ صبیحہ خانم سے لے کر اداکارہ صائمہ تک یوسف خان نے تقریباً تمام قابل ذکر ہیروئن کے مقابل بہ طور ہیرو کے کردار ادا کیے، جن میں شمیم آراء، نیلو، حسنہ، لیلیٰ، بہار، نغمہ، شیریں، فردوس، دیبا، عالیہ، زھمرد، رخسانہ، روزنیہ، سلونی، رانی، نشو، آسیہ، شبنم، ممتاز، بابرہ شریف، مسرت شاہین، نازلی، نجمہ، سنگیتا، نیلی اور صائمہ کے نام بہ طور ہیروئن ان کی فلمی فہرست میں شامل ہیں۔

1954ء سے2000ء تک اداکار یوسف خان سینما کے پردے پر ایک فلمی شہزادے کی طرح اپنی عزت اور شہرت کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے رہے۔ وہ کبھی بھی فلمی بھیڑچال کا شکار نہ رہے، نہ کبھی انہوں نے زیادہ فلمیں کرنے کی خواہش کی۔ ’’ضدی‘‘ کی ملک گیر کام یابی کے بعد ہر فلم ساز کی خواہش ہوتی کہ ان کی فلم میں یوسف خان ہیرو کا کردار کرے، جس کے لیے وہ انہیں منہ مانگے معاوضے پر کاسٹ کرنے کو تیار تھے، مگر انہوں نے کبھی اپنے اصول نہ توڑے، وہ ایک فلم مکمل کروانے کے بعد دوسری فلم کے لیے معاہدے کرتے اور اگر کوئی فلم ساز اس دوران انہیں کاسٹ بھی کرلیتا تو جب وہ ٹائم پر نہیں شوٹنگ کرتے تو ان کی ایڈوانس واپس کردیتے اور معذرت کرلیتے۔ 

وہ زیادہ تر دن کے دو بجے کے بعد اسٹوڈیو آتے تھے، لیٹ نائٹ وہ شوٹنگز نہیں کرتے تھے۔ ایورنیو اسٹوڈیو میں ماپ کے دفتر جس کے وہ چیئرمین تھے، وہاں دس بج شب آجاتے اور آرٹسٹوں کے مسائل سن کر ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے، رات دیر تک وہ بڑی پابندی کے ساتھ اپنا وقت دیتے اور پھر دوسرے روز دن کے دو ڈھائی بجے اسٹوڈیو آتے تھے۔ وہ ایسے اداکار تھے، جو کہانی میں اپنے کریکٹر کو دیکھتے، اگر وہ انہیں پسند آتا تو وہ حامی بھرتے ورنہ کھلا انکار کردیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی فلموں کی تعداد اس دور کے دیگر اداکاروں کے مقابلے کم رہی۔

وہ تعداد سے زیادہ کوالٹی آف ورک کو اور کریکٹر کو اہمیت دینے والے ایک نابغہ روزگار فن کار تھے۔ اداکاری کے علاوہ انہوں نے بہ طور پروڈیوسر اپنے بیٹے ٹیپو کے نام سے ایک پروڈکشن ادارہ قائم کیا۔ ’’سوھنی مہیوال‘‘ اور ’’بت شکن‘‘ جیسی یاداگار اور کام یاب فلمیں بنائیں۔ اداکار ایوب خان جنہوں نے فلم ’’وارنٹ‘‘ میں اداکار یوسف خان کے ساتھ ایک اہم رول ادا کیا تھا، وہ ان کے قریبی رشتے دار تھے، بلکہ ان کے بیٹے کی طرح تھے، وہ یوسف خان کے بعد دوسرے شخص تھے جو فلمی صنعت سے وابستہ رہے۔ فلمساز جونی ملک کی ان سے ذہنی اور قلبی وابستگی رہی۔ جونی ملک انہیں ہمیشہ اپنے بزرگ کی طرح عزت اور چاہت دیتے تھے۔ 

یوسف خان بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، صاف گو، نڈر جیسے وہ اسکرین پر نظر آتے تھے۔ عام زندگی میں بھی ویسے ہی تھے۔ پنجابی فلموں کے لی جنڈلی سپر اسٹار سلطان راہی جنہیں ہدایت کار اقبال کشمیری کی پنجابی فلم ’’بابل‘‘ سے پہچان ملی۔ جب 1971ء میں اقبال کاشمیری نے اس فلم کو بنانے کا ارادہ کیا، تو اس فلم کے اہم کردار جبرو بدمعاش کے لیے پہلے انہوں نے ساون کو کاسٹ کیا تھا، مگر فلم کے ہیرو یوسف خان کے کہنے پر سلطان راہی کو کاسٹ کیا۔ جبرو بدمعاش کا کردار کرکے سلطان راہی نے کام یابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔

ماپ کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں، راقم الحروف کی پہلی ملاقات اور تعارف معروف سینئر اداکار الیاس کاشمیری نے بالمشافہ ایورنیو اسٹوڈیو میں کروائی تھی، اس کے بعد پھر یہ سلسلہ ان کے انتقال تک جاری رہا۔ ان کے ساتھ طویل نشستوں میں فلمی صنعت کے حوالے سے بہت سی باتیں اور کہانیاں سنیں۔ 2004ء میں انہیں فنی خدمات کے صلے میں حکومت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ فلمی صنعت کا یہ خوب صورت روشن ستارہ20ستمبر 2009ءکو انتقال فرما گئے۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید