• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس کو پارلیمنٹ بلائیں، پوچھیں ریکارڈ کیوں مانگا، شاہد خاقان

اسلام آباد(ایجنسیاں)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ریکارڈ فراہم کرنے کے حوالے سے تمام تر اختیار اس ایوان کے ارکان کو حاصل ہے‘ اسپیکر ہم سے پوچھے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے‘ معاملہ ہمارے سامنے رکھا جائے، پھر ہم فیصلہ کریں گے، اس ایوان کی کمیٹی بنائی جائے، اس میں چیف جسٹس کو بلا کر پوچھا جائے کہ کیوں انہوں نے ریکارڈ مانگا ہے، یہ ایوان کی بالادستی کا معاملہ ہے، اس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ہم عدالت کے خلاف نہیں، صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم کسی ادارے کی اور وہ ہماری آئینی حدود میں مداخلت نہ کرے، پورے ایوان کی کمیٹی بنا کر ماضی میں جن ججوں نے آئین کی خلاف ورزیاں کی ہیں اس کی تحقیقات کی جائیں۔

 وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ پارلیمان کو ہمیشہ بندوق اور ہتھوڑے سے ڈرا دھمکا کر مفاہمت کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ دو آئینی ادارے آمنے سامنے ہیں لیکن پارلیمان کے سامنے پہلے بندوق والا اور آج ہتھوڑے والا ادارہ ہے‘اگر ہتھوڑے والوں کو آئین کے تحت پابند نہیں کیا جائے گا تو ہر ادارے سے ایسی آوازیں اٹھتی رہیں گی۔

 بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شاہد خاقان نے کہا کہ 1997 میں سجاد علی شاہ نے ایوان کا ریکارڈ مانگا تھا،ا سپیکر ہم سے پوچھے بغیر یہ ریکارڈ نہیں دے سکتے، اس وقت کے سپیکر الٰہی بخش سومرو نے ہم سے پوچھے بغیر ریکارڈ دے دیا تھا، یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایوان کا حذف شدہ ریکارڈ بھی انہیں فراہم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جو آئین ہم نے بنایا ہے اس کے تحت ہی سپریم کورٹ کام کرتی ہے، یہ ایوان سپریم کورٹ کا خالق ہے۔

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ دو ادارے آمنے سامنے آ چکے ہیں، پورے ایوان کی کمیٹی بنائی جائے، آئین و قانون کی جو تشریح وہ کر رہے ہیں یا ہم جو آئین کی تشریح کر رہے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں فرق ہے، میری استدعا ہے کہ اس ایوان میں ایک قرارداد پیش کی جائے جس میں کہا جائے کہ یہ ایوان سپریم کورٹ کا خالق ہے اور جن جن ججوں نے ماضی میں آئین کی خلاف ورزیاں کی ہیں وہ زندہ ہیں یا وفات پا چکے ہیں پورے ایوان کی کمیٹی بنا کر اس کی تحقیقات کی جائیں۔ جب بھی آئین کی خلاف ورزی ہوئی اس پر ججوں نے مہر تصدیق ثبت کی۔

اعلیٰ عدلیہ میں ایک لاکھ 80 ہزار مقدمات زیر التواء ہیں، صرف سپریم کورٹ میں 51 ہزار مقدمات زیر التواء ہیں،لوگ پھانسی لگ جاتے ہیں بعد میں انہیں بے گناہ ثابت کیا جاتا ہے۔ان کے لیے ماتم کرنے کا وقت ہے، خدا کے لہجے میں بات کرنے والے پہلے مقدمات تو نمٹائیں۔

اہم خبریں سے مزید