فن و ثقافت کے مرکز لاہور میں جنم لینے والا ایک فن کار ایسا بھی ہے، جس نے دُنیا بھر میں راج کرنے والی بالی وڈ کے سپراسٹار کی بھرپور توجہ حاصل کرکے ان کے دل جیتے۔ بالی وڈ میں کبھی سپراسٹار سلمان خان اور شاہ رُخ خان نے اس کے فن کو سراہا، تو کبھی کترینا کیف فلموں میں اس کی ہیروئن بن گئیں۔ ٹیلی ویژن انڈسٹری کے سب سے مقبول پروگرام ’’کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں سے لیجنڈ اسٹار امیتابھ بچن کے دِل میں ایسے اُترے کہ وہ بھی اس فن کار کی صلاحیتوں کا کُھل کر اعتراف کرنے لگے، رنویر سنگھ اور رشی کپور سب ہی اس کے دیوانے ہوگئے۔
پھر ایسا ہو اکہ اس وراسٹائل فن کار کو ایسی نظرِ بد لگی کہ ایک گلوکارہ کی ٹوئٹ نے اس کی زندگی بدل دی۔ پھر تو سب کچھ بدل گیا، کئی انٹرنیشنل پروجیکٹس کے معاہدے ختم کر دیے گئے، لیکن اس فن کار کے مداحوں کی دُعاؤں اور والدین کی تربیت نے اس کا حوصلہ برقرار رکھا، اس نے کسی بھی لمحے صبر، شکر، برداشت، تحمل،بردباری، سنجیدگی اور سچائی کا دامن نہیں چھوڑا۔ اور اپنے فنّی اور تخلیقی سفر کو آگے بڑھنے سے تھمنے نہیں دیا۔ نتِ نئے آئیڈیاز پر کام کر کے دُنیا بھر کے مداحوں کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ اپنی لاجواب پرفارمینس کی وجہ سے آسمانِ شہرت پر چمکتا رہا۔
اس نے حمدیہ کلام، نعت شریف ، ملی اور فوک گیتوں کو نیا رنگ دے کر سماعتوں میں رَس گھولا۔ جی ہاں قارئین ہم بات کر رہے ہیں، سرحدوں کی دونوں جانب مقبول فن کار علی ظفر کی۔ ان کے نام اور کام سے سب واقف ہیں۔ بالی وڈ کی کام یاب فلم ’’میرے برادر کی دُلہن‘‘ میں بھارتی سپراسٹار اور کروڑوں دِلوں کی دھڑکن کترینا کیف کے ساتھ بہ طور ہیرو جلوہ گر ہوئے، تو مختلف ممالک میں اُن کی دُھوم مچ گئی۔
انہوں نے بالی وڈ کی سات فلموں میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان فلموں میں تیرے بن لادن، میرے برادر کی دُلہن، لندن پیرس نیویارک، چشمِ بدور، ٹوٹل سیاپا اور کِل دِل شامل ہیں۔ مودی سرکار کی حکومت کے بعد دونوں ممالک میں فن کاروں کے لیے پابندی لگ گئی، تو علی ظفر نے 2018ء میں جیو کے تعاون سے ایک زبردست ایکشن فلم ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ پروڈیوس کی۔ اس فلم کی ریلیز سے چند ماہ قبل 19؍ اپریل 2018ء میں معروف گلوکارہ میشا شفیع کے ایک ٹویٹ نے علی ظفر کی فلم کو ریلیز کرنے میں مشکلات پیش کیں، لیکن اس کے باوجود فلم کو دُنیا بھر میں زبردست کام یابی حاصل ہوئی۔
علی ظفر، خُوش شکل، خُوش گفتار، خُوش لباس اور خُوش گلو فن کار کی حیثیت سے شوبزنس میں اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ وہ ایک کام یاب گلوکار، مقبول ماڈل، باصلاحیت مصوّر اور کام یاب اداکار بھی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے، جنہیں ابتدا میں محض ایک سونگ کی وجہ سے شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی یہ مقبولیت اس زمانے میں سی ڈی اور کیسٹ کے ذریعے گھر گھر پہنچی۔
ان کا گایا ہوا سونگ ’’چُھنو کی آنکھ میں اِک نشہ ہے‘‘ کو موسیقی کے دیوانوں نے زبردست پذیرائی دی۔ اس کے بعد تو ان کے ایک سے بڑھ کر ایک گیت ریلیز ہوئے اور وہ ڈراموں اور فلموں میں شامل ہو کر سماعتوں میں رَس گھولتے رہے۔ ان کے ابتدائی گانوں میں حُقّہ پانی، رنگین، چل دِل میرے، جُھوم، مدھوبالا، پی ایس ایل کے گیت، لیلیٰ او لیلیٰ، الے الے، فلم ’’ہوئے تم اجنبی‘‘ کا ٹائٹل گیت ’’اَجنبی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی آواز میں ڈراموں کے OST بھی مقبول ہوئے۔ ان میں ڈراما پہلی سی محبت، فراڈ، ہم تم، زندگی گلزار اور دیگر شامل ہیں۔
وراسٹائل فن کار علی ظفر سے گزشتہ دنوں لاہور میں ان کی رہائش پر دِل چسپ ملاقات ہوئی۔ لاہور ڈیفنس کے علاقے میں انہوں نے اپنی محنت کی کمائی سے شان دار بنگلہ خریدا اور اس میں اپنی پسند کا اسٹوڈیو بھی بنایا ہے۔ ان کے اسٹوڈیو میں جہاں نظر پڑتی تھی، ان کے بنائے گئے فن پاروں کی کہکہشاں دکھائی دیتی تھی۔ علی ظفر نے ہمارا محبتی انداز میں استقبال کیا اور پھر ان کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم نے سب سے پہلے ان سے پوچھا کہ ’’آپ نے فنون کی مختلف اصناف میں اپنی لاجواب پرفارمینس کا جادو جگایا، خود کو فن کی کون سی صنف سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں علی ظفر نے ذرا سوچتے ہوئے بتایا کہ ’’ویسے تو مجھے تخلیقی کام میں بہت مزا آتا ہے، جب کوئی پینٹنگ کرتا ہوں تو اچھا لگتا ہے، کوئی گانا کمپوز کرتا ہوں تو طبیعت کو سکون ملتا ہے، جب فلم کے کسی کردار میں ڈُوب جاتا ہوں، تو وہ لمحہ بھی دل کو اچھا لگتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود میں اداکار سے زیادہ بہتر گلوکار ہُوں۔ ابتدا میں مجھے شناخت بھی ایک گلوکار کی حیثیت سے ملی۔ اس لیے موسیقی میرے دل کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ آپ نے مختلف علاقائی زبانوں میں گیت گائے، وہ تجربہ کیسا رہا؟
مسکرا کر جواب دیا۔ بہت لاجواب رہا۔ مجھے علاقائی اور مضافاتی گیتوں میں مٹھاس ہمیشہ سے محسوس ہوتی رہی ہے، لیکن میرے گانوں کی وجہ 12 برس کی عروج فاطمہ بنیں۔ ایک روز ان کی کال آئی کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہُوں۔ میں نے کہا آجائیں۔ انہوں نے میرے اسٹوڈیو میں اپنی آواز میں ’’لیلیٰ لیلیٰ‘‘ گیت سُنایا تو مجھے اچھا لگا۔ میں نے اس بچی کی حوصلہ افزائی کے لیے کہا کہ ہم دونوں مل کر اس گانے کو گائیں گے، پھر ایسا ہی ہوا۔ ہم نے ’’لیلیٰ لیلیٰ‘‘ ریکارڈ کیا، اس کی وڈیو بنائی اور جب یہ گیت ریلیز ہوا تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس گیت نے مقبولیت کے ریکارڈ بنائے۔ ہر طرف لیلیٰ لیلیٰ سُنائی دے رہا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ فن کار کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ہے۔ میرے لیے سڑک کے کنارے گانے والا گائیک بھی بہت اہم ہے۔ میں اپنے فن کاروں کی دل سے عزت کرتا ہُوں۔ آپ اگر کسی کی عزت کرتے ہیں، تو آپ کی عزت کم نہیں ہو جاتی ہے۔‘‘
’’طیفا اِن ٹربل‘‘ کے بعد فلم بنانے کے لیے میدان میں کیوں نہیں آئے، جب کہ اس فلم نے شان دار کام یابی بھی حاصل کی؟ اس بارے میں علی ظفر نے بتایا کہ پاکستان میں فلم بنانا بہت آسان ہے، لیکن اچھی اور معیاری فلم بنانا نہایت مشکل کام ہے۔ میں جس معیار کا کام چاہتا ہوں، اس کے لیے سب کو سکھانا پڑتا ہے۔ احسن رحیم جیسے ڈائریکٹر میرے ساتھ تھے، پھر بھی پروڈکشن، فنانسر، موسیقی اور دیگر کام مجھے کرنے ہوتے ہیں۔ ہم نے ’’طیفا اِن ٹربل ٹو‘‘ اناؤنس کی، لیکن پھر کورونا آ گیا، اس نے سب کی دُنیا بدل کر رکھ دی۔
میں اب بھی اعلیٰ معیار کی فلم بنانا چاہتا ہُوں، لیکن انڈسٹری کے کچھ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ میں ایسا نہ کروں۔ وہ مشکلات اور رُکاوٹوں میں لگ جاتے ہیں۔ فلم انڈسٹری سے وابستہ ہنرمندوں کی بہتری کے لیے فلم بنانا چاہتا ہُوں۔ میں تو بنیادی طور پر سنگر ہوں، میرا کام تو سال بھر چلتا رہتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں کنسرٹس اور بیرون ملک پرفارمینس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نئی چیز بنانے میں تھوڑا وقت تو لگتا ہے۔ میں موسیقی میں بھی ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی سوچتا ہُوں۔ نیا خیال، نئی چیز، لوگوں کو اچھی لگتی ہے۔ اِنسان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے سفر کو جاری رکھنا چاہیے۔‘‘
’’طیفا اِن ٹربل‘‘ میں مایا علی کو بہ طور ہیروئن کیسا پایا؟ میں نے بالی وڈ اور لالی وڈ کی مختلف ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ میرا انداز ایسا ہے کہ میں سب کے ساتھ خوش گوار ماحول میں کام کرتا ہوں۔ مایا علی جب سیٹ پر آئی تھی، تو کافی نروس تھی، لیکن میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ان سے کہا!! ’’ آپ مجھے کوئی سپر اسٹار نہ سمجھیں‘‘۔ آپ اپنے انداز اور اعتماد سے کام کریں اور پھر انہوں نے جو کام کیا، وہ فلم میں سب نے دیکھا اور پسند کیا۔‘‘
’’پاکستان فلم انڈسٹری کے حالات کب بہتر ہوں گے، سینما گھروں کے سنّاٹوں کو کون دُور کرے گا؟‘‘ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں ہمارے یہاں نئے آئیڈیا پر کام نہیں ہو رہا۔ ایک ’’مولاجٹ‘‘ اور ’’پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ کی کام یابی سے کام نہیں چلے گا۔
سال بھر ایسی درجنوں فلمیں بنانا ہوں گی۔ سب کو مل کر ماضی کی طرح عمدہ کام کرنے کے لیے سوچنا ہوگا۔ ایک دُوسرے کے کام کو سراہنا ہوگا۔ ہم ایسا کریں گے، تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
’’بالی وڈ کے اچھے لمحات کو یاد کرتے ہیں؟‘‘ جی جی بالکل یاد کرتا ہُوں۔ بالی وڈ بہت بڑی فلم انڈسٹری ہے، مجھے وہاں بہت سراہا گیا۔ میری کوشش تھی کہ میں بالی وڈ میں جو بھی کام کروں، نیا،لاجواب اور عمدہ کروں۔ میں نے وہاں سات فلموں میں کام کیا۔ ان فلموں کی شوٹنگ کے دوران بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یش چوپڑا، ادتیہ چوپڑا، ابھیشک بچن، کرن جوہر، شاہ رُخ خان، امتیابھ بچن، سلمان خان نے مجھے وہاں بہت سپورٹ کیا۔
میں نے کئی ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔ فلم فیئر ایوارڈز کی کمپیئرنگ بھی کی۔ فلم فیئر، بالی وڈ کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ اس کی میزبانی کرکے بے انتہا خوشی ہوئی تھی۔ وہ سپر اسٹار جنہیں ہم فلموں میں دیکھا کرتے تھے، میرے سامنے تشریف فرما تھے۔ یہ سب دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ فلم فیئر کی تقریب میں، میں نے اپنا مشہور گیت ’’جُھوم‘‘ بھی پیش کیا تھا، حاضرین نے کافی پسند کیا تھا۔‘‘
مشہور قوالی ’’سرِ لامکاں سے طلب ہوئی‘‘ پڑھنے کا خیال کیسے ذہن میں آیا؟ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب کورونا کی وَبا نے ہم سب کو پریشان کر رکھا تھا۔ میری والدہ کو بھی کورونا ہو گیا تھا۔ میری والدہ نے مجھے یہ نعتیہ قوالی بھیجی۔ میں نے اسے بار بار سُنا اور پھر والدہ کی پسند کو سامنے رکھتے ہوئے اسے پڑھا۔ پہلے تو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اتنا بڑا کلام میں کیسے پڑھوں گا، لیکن بعد میں قدرت نے ہمت عطا کی اورمیں نے یہ نعتیہ کلام ریکارڈ کروایا اور اس کی وڈیو بھی ریلیز کی، جسے میرے پسند کرنے والوں نے سراہا۔ مجھے ذاتی طور پر بھی یہ کلام بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’چھنو کی آنکھ میں ایک نشہ ہے‘‘ سے ’’ہوئے تم اَجنبی‘‘ تک گائیکی کا سفر کیسا رہا؟ بہت عمدہ رہا۔ فینز کی دُعاؤں سے کام یابی کا سفر جاری ہے۔ ان دنوں میں سب سے زیادہ وقت اپنی فیملی کو دیتا ہوں۔ میرا 13 سال کا بیٹا اور 8 سال کی بیٹی ہے۔ انہیں اسکول چھوڑنے جاتا ہوں، یہی میرا سب کچھ ہے۔‘‘
اپنی کون سی فلم اچھی لگی؟ مجھے اپنے آپ کو اسکرین پر دیکھنا عجیب سالگتا ہے۔ اپنی فلمیں کم ہی دیکھی ہیں۔‘‘
آپ کا چھوٹا بھائی دانیال ظفر آج کل کم کم نظر آتا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں علی ظفر نے بتایا کہ اسے بہت زیادہ شہرت کا بالکل شوق نہیں ہے، وہ میوزک کرتا رہتا ہے اور گانے بناتا رہتا ہے۔ اُسے ڈراموں میں کام کرنے کی آفر بھی ہوئی ہیں۔ اب شاید کسی پروجیکٹ کا حصہ بنے۔
آپ کے ہیرو کون ہیں؟ اس سوال پر علی ظفر نے بتایا کہ جب چھوٹا تھا، تو سپرمین، سابق کپتان عمران خان، امتیابھ بچن اور کشور کمار کو اپنا ہیرو مانتا تھا۔ بچپن میں جن کے فینز تھے، بعد ازان ان کے ساتھ کام کرنا بہت اچھا لگا۔‘‘
’’آپ کے بارے میں میشا شفیع کی ایک منفی ٹوئٹ نے شوبزنس کی دُنیا میں طوفان برپا کر دیا تھا، اس سے آپ کی زندگی پر کیا منفی اثرات مرتب ہوئے‘‘؟ علی ظفر نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ میں اس موضوع پر اب بات نہیں کرتا۔ پانچ برس گزر گئے۔ اس دوران میرے رَبّ نے مجھے بہت ہمت عطا کی۔ والدین کی تربیت بہت کام آئی۔ اس ٹوئٹ کے بعد مجھ میں بہت ساری تبدیلیاں رُونما ہوئیں اور میں نے اپنا فنّی سفر مزید توانائی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ اس ٹوئٹ نے مجھے ذہنی اور مالی طور پر بہت نقصان پہنچایا۔‘‘
نئی نسل کو کوئی خاص پیغام دینا چاہتے ہیں؟ نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ اپنی پڑھائی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور کتابوں سے دوستی کر لیں۔ ان کتابوں میں سب مسئلوں کا حل موجود ہے۔ سوشل میڈیا میں کچھ نہیں ملے گا۔‘‘