اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے عمران خان کو روسٹرم پر بلا لیا، ریمارکس دیئے کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، آپ گیسٹ ہاوس میں رات گزاریں، گپ شپ لگائیے، سو جائیے، صبح عدالت میں پیش ہوجائیے، خاندان کے 6 ارکان ساتھ رکھ سکتے ہیں، عدالت چاہتی ہے آپ خود ملک میں فسادات کی مذمت کریں،بے شک مخالفین پسند نہیں لیکن سیاسی بات چیت کریں، اس سے امن آئیگا، آپ ہماری تحویل میں ہیں، ڈرہے ہماری کسٹڈی میں کچھ نہ ہو، عمران خان نے کہا آپ کی کسٹڈی کی وجہ سے برکت آگئی، عدالت نے عمران خان کی بنی گالہ جانے کی استدعا مسترد کر دی، عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو آج اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو گا آپ کو ماننا ہو گا، ممکن ہو تو اسلام آباد ہائی کورٹ دن 11بجے تک کیس سماعت کیلئے مقرر کرے، عدالتی تحویل کے دوران عمران خان کو دس قریبی رفقا، عزیزوں اور وکلا سے ملاقات کی اجازت ہو گی۔ سماعت مکمل ہونے پر چیئرمین کو سپریم کورٹ کے حکم پر رینجرز کی سیکورٹی میں پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں پہنچا دیا گیا، جہاں وہ ایک شب کیلئے عدلیہ کے مہمان رہیں گے۔ بعدازاں مقدمے کا عدالتی حکم نامہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ یہ حکم عمران خان کےہائیکورٹ میں پیش ہونےتک برقرار رہے گا، سپریم کورٹ کاآج کاحکم نامہ نیب کی القادرٹرسٹ کیس کی کارروائی پراثراندازنہیں ہوگا، عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ عمران خان کی گرفتاری سے انکے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، حکم نامے میں کہا گیا کہ رجسٹرار ہائیکورٹ عمران خان کا کیس 11بجے مقرر کرنے کیلئے چیف جسٹس کےسامنے رکھیں، آرڈر میں سپریم کورٹ نے عمران خان کو فول پروف سیکورٹی دینے کا حکم دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے عمران خان کی گرفتاری کیخلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے انہیں فوری رہا کرکے پولیس لائنز کے گیسٹ ہاوس میں سیف کسٹڈی میں رکھنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ عدالت میں ضمانت کیلئے آئے کسی بھی شخص کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے عمران خان کی طرف سے بنی گالہ جانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ سکیورٹی کی خاطر محفوظ مقام پر رکھنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ دوران سماعت عمران خان نے گرفتاری سے متعلق واقعات سے عدالت کو آگاہ کیا اور بتایا کہ مجھے دہشت گردوں کی طرح پکڑا گیا، گرفتار کرنے پر مجھے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ایسا تو کریمنل کے ساتھ بھی نہیں ہوا ہو گا، مجھ پر دہشت گردی سمیت کئی مقدمات قائم کئے گئے ہیں، اس دوران باہر کیا کچھ ہوا معلوم نہیں کیونکہ میرا موبائل بھی مجھ سے لے لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں تو حراست میں تھا توڑ پھوڑ کی ذمہ داری مجھ پر کیسے آ سکتی ہے، 25مئی کے بعد جب بھی تشدد کا خدشہ پیدا ہوا میں نے احتجاج ختم کیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کو کہا ہمارے سامنے ضمانت کا معاملہ ہے، آپ گیسٹ ہاوس میں رات گزاریں، گپ شپ کریں، سو جائیں اور صبح ہائی کورٹ میں پیش ہوں، آپ بطور مہمان رہیں گے، ہائی کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہو اسے قبول کرنا پڑے گا، آپ نے خود کہا کہ ملک میں جلاو گھیراو نہیں چاہتے۔ املاک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ آئین پر عملدرآمد تب ہی ہوسکتا ہے جب ملک میں امن ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پٹیشنر کو کچھ علم نہیں باہر کیا ہورہا ہے، باہر جو ہورہا ہے اسکے ذمہ دار آپ ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ایک پاٹی جو الیکشن چاہتی ہے کیا وہ انتشار چاہے گی؟ انتشار وہ چاہتے ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے سپورٹرز کو پرامن رہنے کا پیغام دیں، امن ہو گا تو ریاست چلے گی۔ عمران خان کے پیش ہونے سے پہلے کی سماعت کے دوران عدالت نے عمران خان کی گرفتاری پر قانونی سوالات اٹھاتے ہوئے اور انہیں ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ اٹارنی جنرل نے سماعت ایک دن کیلئے ملتوی کرنے کی استدعا کی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اس معاملے پر عدالت بہت سنجیدہ ہے، گرفتاری کو وہیں سے ریورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے؟ عدالت کا احترام ہوتا ہے، عدالت کی پارکنگ سے نیب نے ایک ملزم کو گرفتار کیا تھا، عدالت نے اس گرفتاری کو واپس کروایا تھا جس کے بعد نیب نے یقین دہانی کروائی تھی کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری نہیں ہو گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ایسی گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔ نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا۔ یہ طریقہ کار بند کرنا ہو گا۔ عمران خان عدالت کے احاطے میں داخل ہوچکے تھے۔ کسی کو انصاف کے حق سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس وقت ہم گرفتاری کے طریقہ کار اور عدالت کی بے توقیری سے متعلق معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ہر کوئی چاہتا ہے دوسرا قانون پر عمل کرے، یہ عدالتوں کے احترام کا طریقہ کار نہیں۔