نواب شاہ شہر کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے چار کروڑ روپے کی لاگت سے بنائے گئے سیف سٹی پروجیکٹ کہ دو سو میں سے ستر کیمرے خراب ہونے کا فائدہ جرائم پیشہ عناصر اٹھا رہے ہیں۔ شہر بدامنی کی لپیٹ میں اور مسلح موٹرسائیکل سوار شہر کے مختلف حصوں میں لُوٹ مار میں مصروف ہیں، جب کہ شہری سراپا احتجاج ہیں۔ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کے مطابق شہر کو محفوظ بنانے کے لیے ایم پی اے علی حسن زرداری نے چار کروڑ روپے کی لاگت سے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت شہر میں دو سو جدید ترین کیمرے لگائے گئے اور اس کے سسٹم میں دو ہزار کیمروں کی گنجائش رکھی گئی۔
اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ سسٹم اسلام آباد اور لاہور میں لگائے گئے سیاسی پروجیکٹ سے بھی جدید ترین ہے اور اس کی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ شہر میں ہونے والی وارداتوں کے ملزمان تک چند گھنٹوں میں رسائی ممکن ہوگئی تھی اور اس کی افادیت یُوں بھی تھی کے پولیس نفری کی قلت اور ہر جگہ پر پولیس سے تعینات کرنا نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیمرے ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے تھے اور جرائم پیشہ عناصر بھی ان کی آنکھ سے دور نہیں تھے۔ تاہم ایس ایس پی کے مطابق کیوں کہ یہ پروجیکٹ انفرادی اور ذاتی طور پر لگایا گیا تھا ،اس لیے اس کی مینٹیننس کے فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ انتہائی مفید اور جدید سسٹم تھوڑے ہی عرصے میں خراب ہو گیا۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ کنٹرول روم کا ایئرکنڈیشن سسٹم گھنٹوں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر سکا اور جس کی وجہ سے مین سرور میں فالٹ آ گیا اور شہر کے دوسو میں سے ستر کیمرے خراب ہو گئے ، جس کا فائدہ جرائم پیشہ عناصر نے اٹھایا اور شہر میں بدامنی کی آگ لگا دی۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ صوبے کے دیگرعلاقوں سے آنے والے جرائم پیشہ عناصر نے مقامی سہولت کاروں کی مدد سے شہر میں پے در پے وارداتیں کیں اور شہریوں کو ان کی خون پسینے کی کمائی سے محروم کیا، جب کہ عدم تحفظ کا احساس بھی شدید کر دیا۔
تاہم ایس ایس پی نے گلہ کیا کہ شہر کے تاجر جو کہ ذاتی گارڈ رکھنے میں خطیر رقم خرچ کرتے ہیں، انتظامیہ کی بار بار کی درخواست پر اپنے گھروں اور دکانوں کے اطراف اضافی کیمرے نصب کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے ہیں، بدقسمتی سے سیف سٹی پروجیکٹ میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے یہ جدید ترین سسٹم جو کہ جرائم پیشہ عناصر پر نظر رکھنے کے لیے لگایا گیا تھا، تھوڑے عرصے اپنی کارکردگی دکھا سکا۔ تاہم امیر سعود مگسی ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر شہریار گل میمن کے تعاون سے سیف سٹی سسٹم کی خرابیوں کو دُور کرنے اور اس کو موثر بنانے اور اس کے ذریعے جرائم پیشہ عناصر پر نظر رکھنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
ادھر شہر میں بدامنی اور لُوٹ مار نے تاجروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، بینک میں رقم جمع کرانے اور لانے والے کئی تاجروں کو مسلح افراد نے لوٹ لیا، جس کی وجہ سے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس شدید ہوتا جا رہا ہے اور بد امنی سے ستائے تاجر گزشتہ روز سڑکوں پر آگئے، سکرنڈ روڈ سے پریس کلب تک ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت دیدار رند شکیل راجپوت اور عبدالحمید شیخ کر رہے تھے، ریلی میں بڑی تعداد میں میڈیکل اسٹور مالکان اور کام کرنے والے ملازمین نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء نے زرداری تیرےشہرمیں اندھیر ہے اندھیر ہے، چوری چکاری بند کرآؤ، تاجروں کو تحفظ دو، شہریوں کو تحفظ دو، کے نعرے لگا رہے تھے۔
پریس کلب پر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے صدر دیدار رند شکیل راجپوت اور عبدالحمید شیخ کا کہنا تھا کہ شہر کو چوروں ڈاکوؤں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دن دھاڑے وارداتیں ہو رہی ہیں۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے باوجود شہر میں وارداتیں اس بات کا ثبوت ہے کہ محکمہ طور پر پولیس میں موجود بعض کالی بھیڑیں چوروں ڈاکوؤں کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔ محکمہ پولیس میں بھرتی ہونے والے پولیس اہل کاروں کی ازسرنو اسکریننگ کی جانی چاہیے۔
اس لیے کہ بعض وارداتوں میں مبینہ طور پر پولیس اہل کاروں کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں دھامراہ روڈ پر ڈرگ ایجنسی سے لاکھوں روپے کی لوٹ مار کی گئی، جب کہ میڈیکل اسٹوروں سمیت شہر کی دکانوں کے سامنے کھڑی موٹر سائیکلیں چُرائی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سبزی منڈی میں مزدوری کرنے والے 15 سالہ رمضان لاشاری کو جو کہ گھر کے باہر موبائل فون سے کھیل رہا تھا ، مسلح افراد نے موبائل نہ دینے پر سینے میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ پولیس ان کے قاتلوں کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ رمضان لاشاری نے مزدوری کرکے پندرہ ہزار روپے کا موبائل خریدا تھا جو کہ اس کی موت کا سبب بنا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ شہر میں کئی وارداتیں ہو چکی ہیں لیکن پولیس اس کا سراغ لگانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، جب کہ درجنوں موٹرسائیکل چھینی اور چوری کی جا چکی ہیں۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ کوئی بھی واردات ہونا پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وارداتوں کے بعد پولیس افسران اور اہل کاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہیں۔ شہر کے تمام تھانوں کے ایس ایچ او کو تبدیل کیا گیا، جب کہ کئی پولیس افسران کے گریڈ کو کم کرکے دو سال تک مراعات بھی بند کی گئی، جب کہ درجنوں اہل کاروں کو ضلع بدر کیا گیا ہے۔