• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم شہزاد

تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں وہ مارا مارا پھر رہا تھا ،اسے بھی دیگر نوجوانوں کی طرح اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ سخت نا امید ہوجاتا۔ میرے ماں باپ نے کس طرح میری تعلیم پر خرچ کیا اور اب میں نجانے کب تک اسی طرح نوکری کے حصول کے لیے دھکے کھاتا رہوں گا اور اُن پر بوجھ بنا رہوں گا۔

وہ اکثر سوچتا تھا کہ یہ جو اتنے امیر امیر لوگ ہیں جو بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں وہ بھی تو اسی ملک سے کما رہے ہیں، اسی ملک میں رہتے ہیں پھر کیوں ہر کوئی یہ راگ الاپتا نظر آتا ہے کہ اس ملک میں کچھ نہیں رکھا۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں ،جنہوں نے اسی ملک میں کاروبار شروع کیا اور اب ان کی نسلیں اس کاروبار کو سنبھالنے میں مصروف ہیں ۔ کتنے لوگوں کا روزگار ان بڑے تاجروں کے کاروبار سے وابستہ ہے ۔ تو پھر کیوں ہم کو نوکری نہیں ملتی۔ اور اگر ملتی بھی ہے تو دل ہی نہیں چاہتا کہ اتنی تعلیم کے بعد ایسی نوکری کریں۔

لیکن نوکری ہی کیوں ۔۔ کاروبار ۔۔۔ ہاں کاروبار۔۔۔۔ کاروبار کیوں نہیں کرسکتا ؟ کیا اعلیٰ تعلیم نوکری کے حصول کے لئے ہی حاصل کرنی چاہیے ؟

کیا کاروبار کے لئے بہت سا سرمایہ چاہیے ؟ اس کے دماغ اسےکچھ الگ راستے پر لے جا رہا تھا۔ کیا میں کوئی چھوٹا کاروبار شروع نہیں کرسکتا؟ ایک اور سوال نے سر اٹھایا ۔

ابا جو کر رہے ہیں کیا میں ان کے کام کو آگے نہیں بڑھا سکتا؟

لیکن ابا تو اسکول وین چلاتے ہیں، اس میں آگے بڑھنے کا کیا کام ہے۔وہ سوچنے لگا ،مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تو ابا کے پاس چلاگیا اور ان سے پوچھا کہ،"آپ اسکول وین چلاتے ہیں تو ہم اس کو کاروبار کیسے بنا سکتے ہیں ۔۔؟"

”اتنا پڑھ لکھ کر ؟؟ “ ابا نے حیرت سے پوچھا ۔

” ابا میں نوکری نہیں کرنا چاہتا بلکہ نوکری دینا چاہتا ہوں ۔“اس کی بات سن کر ابا کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔ انہوں نے کہاکہ،’’ ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی تو کاروبار کو ہی اہمیت دی ہے ،بیٹا میں خود بھی دل سے یہ ہی چاہتا تھا کہ تم میرے ساتھ مل کر ہی کام کرو ، ہم اسی کام کو بہت آگے تک بڑھا سکتے ہیں ۔ 

میں نے کچھ رقم پس انداز کی ہوئی ہے۔“ اور اس کو پھر نئے راستے دکھائے اور دونوں نے مل کر ایک وین اور لےلی اور آہستہ آہستہ ایک سے دو ، اور دو سے تین اور پھر اس طرح سے ان کی اسکول وین کی ایک چین بنتی چلی گئی، جس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاحوں کو شہر میں گھمانے اور پکنک پر لے جانے کا کام بھی شروع کردیا ۔ اپنے چھوٹے بھائی اور چچا زاد بھائی اور گئی بے روز گار نوجوانوں کو بھی ساتھ ملایا۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کسٹمرز سے شائستہ زبان میں بات چیت کرتا اور دوسری زبانیں بھی بول اور سمجھ لیتا۔

اب وہ کبھی کبھی سوچتا ہے کہ اگر اس نے نوکری کی ہوتی تو وہ آج وہ کسی کے زیردست کام کررہا ہوتا لیکن اللّہ تعالیٰ نے اس کو درست راہ دکھائی اور اس نے کاروبار کا راستہ چنا ،جس کی بدولت آج اس کا معاشرے میں ایک مقام ہے اور کتنے ہی لوگوں کا روزگار اس کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ زندگی کے سفر میں درپیش ہر چیلنج ہی ترقی اور خود کی دریافت کے عمل میں مواقع لے کر آتی ہے۔ 

یہ امتحان مشکل لگ سکتے ہیں لیکن کچھ نیا سیکھنے، سمجھنے اور اپنے اندر لچک کی گہرائی کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔جو ہمارے پاس ہے، اسے ہم کس طرح استعمال کرتے ہیں یہ زیادہ اہم ہےآزمائش زندگی کی سڑک کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ تو ایک نئے سفر کا نقطہ آغاز بن سکتے ہیں۔ اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اپنے معیار سے کم کو بھی ترجیح دینی چائیے کیوں کہ گڑھے کوتو پیچھے ہٹ کر ہی پار کرنا ہوتا ہے ناں! اگر گڑھا پار نہیں کریں گے توسفر کیسے طے کریں گے اور جب سفر طے نہیں کریں گے منزل تک کیسے پہنچیں گے؟۔ یقیناً کوئی کام بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ دل سے کام کرنے میں ہی کامیابی ہےجو ہم اس ملک میں رہ کر بھی کرسکتے ہیں۔

ابھی بھی ہمارے ملک میں بہت کچھ ہے ۔ اللّہ تعالیٰ اس کو دشمنوں سے محفوظ رکھے ورنہ آج کا نوجوان تو تاریک راستوں کا ہمسفر بن گیا ہے ۔ بس اس کے راستے میں ایک دیا روشن کرنے کی ضرورت ہے پھر ان شاءاللہ دیئے سے دیا جلتا جائے گا۔