9 نومبر کی صبح ارض پاک کے تعلیمی اداروں میں یوم اقبال کے سلسلے میں منعقدہ تقریبات میں کہیں ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ کہیں ’’بچے کی دعا‘‘ تو کہیں کوئی خوش الحان طالب علم علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ رہا تھا ؎
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
اور کہیں اس شعر کی صدائیں بلند تھیں؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور علم و دانش کے مراکز میں طالبان علم علامہ اقبال کے فلسفہ خودی، مرد مومن اور شاہین کے تصور پر تقاریر کر رہے تھے، عین اس وقت ایک کار لاہور سے دو کلو میٹر دور گرد سے اٹی خستہ حال سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔ یہ سڑک ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور کے مضافاتی گاؤں دھرمے والا کو جاتی ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف تاحد نظر فصلیں کھڑی ہیں۔ بظاہر میں کار میں سوار ہوں، مگر میری سوچ اس شعر میں موجود فکر کی بلندی کو چھونے کے لئے محو پرواز ہے؎
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
یہ حسن اتفاق ہے کہ اقبال کے ایک ایسے ہی شاہین کی تلاش مجھے اس زرخیز زمین تک لے آئی ہے۔ وہ شاہین جس کو پرواز کی عمر سے بہت پہلے ہی باد مخالف سے الجھنا پڑا، جس نے اپنے نازک ہاتھوں اور کمزور کندھوں پر تقدیر کے دیئے مصائب اوائل عمری میں اٹھا لئے۔ عمر کے اس دور میں جب بچپن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ زندگی میں ان منٹ نقش بنا رہا ہوتا ہے،جب معصومیت تتلیوں کے پیچھے بھاگنے اور جگنوؤں کو پکڑنے پر اکساتی ہے،جب نیند ہر شب لوری کا تقاضا کرتی ہے، جب بے فکری کی نعمت چہروں پر اپنا رنگ جماتی ہے، جب بڑی اماں سے کہانیاں سنتے سنتے ساری رات بیت جاتی ہے اور پہیلیاں بوجھتے بوجھتے دن گزر جاتا ہے، جب پیپل کی ٹھنڈی چھاؤں میں سنہری لمحے بھول بھلیوں میں گم ہوتے ہیں، جب لہلہاتے کھیتوں کو چھو کر گزرنے سے ایک سرشاری طاری ہوجاتی ہے اور جب موسم اپنے اپنے سے لگتے ہیں، اس سنہری دور میں اقبال کے اس شاہین کو کبھی دن کے اجالوں میں مٹی ڈھونا پڑی اور کبھی رات کی تاریکی میں بیج نے نمو پانے والی فصل کی حفاظت کرنا پڑی۔
غربت کے احساس نے سنجیدگی میں بدل دیا اور پورے کنبے کی بھوک نے اس کے چہرے سے بچپنے اور بے فکری کے سارے رنگ چھین لئے۔کہانیاں سننے والی راتیں فصلوں کو پانی دینے اور دن فصلیں کاٹتے میں گزر گئے، مگر اقبال کے شاہین نے تو باد مخالف سے گھبرانا سیکھا ہی نہیں تھا۔ یوں بچپن سے نوجوانی کی دہلیز تک، جہاں اس نے پامردی سے محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی بھوک مٹانے کے لئے روزی کمائی وہاں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے کتاب سے تعلق بھی استوار رکھا اور پھرخدا، نے اس بے بس نوجوان کو علمی میدان میں اس اعزاز سے نواز دیا جس کی تمنا سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے ہزاروں نوجوان کرتے ہیں۔ قدرت کا انعام عظیم پانے والا یہ نوجوان اختر عباس ہے، جس نے 2002ء میں انتہائی نامساعد حالات میں میٹرک کے امتحان، لاہور بورڈ میں اول (آرٹس)،پنجاب کے آٹھ اور فیڈرل بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
اختر عباس سے میری پہلی ملاقات امتیازی حیثیت سے کامیاب طلباء کے اعزاز میں منعقد ہ ایک تقریب میں ہوئی تھی۔ اس نے مجھ سےاپنا تعارف کروایا تو میں نے اشتیاق بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ تقریب میں شرکت کے لئے لاہور آنے کا اس کے پاس کرایہ نہیں تھا ،جس کے حصول کے لئے مجھے مٹی ڈھونے والے ایک ٹریکٹر ٹرالی کے لئے مٹی کھودنا پڑی، اس لئےتاخیر سے پہنچا ۔ یہ سن کر مجھے ایک دھچکا سا لگا اور میں سوچنے لگا ایسی غربت میں اس نوجوان نے اتنا بڑا علمی معرکہ کیسے سرانجام دے لیا۔ شاندار عمارتوں کے مہنگے اسکولوں میں ہزاروں روپے ماہوار فیس دے کر پڑھنے والے بے شمار طلبہ پاس بھی نہیں ہو پاتے۔ اس محنتی اور ذہین طالب علم کےحالات جاننے کامجھے اشتیاق ہوا تو ایک دوپہر اس نوجوان کے گھرگیا۔
لکڑی کے ٹوٹے دروازے کے دونوں اطراف کچی مٹی کی خستہ حال دیوار تھی۔ اس دروازے سے احاطے میں داخل ہوا، جس میں ایک کمرا اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا باورچی خانہ تھا۔ صحن میں لگے درخت کے ساتھ ایک گائے بندھی تھی۔ صحن میں بچھی چارپائیوں پر اہل خاندان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد علاقے کا نائب ناظم محمد اکرم ایڈووکیٹ اور اختر عباس کے استاد، ارشد ندیم بھی آگئے۔ گفتگو کا آغاز اختر عباس کے والد خوشی محمد سے ہوا جو کئی سال سے دمہ کے مرض میں مبتلا ہونے کی بنا پر بے روزگارتھے،غربت کی بنا پر باقاعدگی سے علاج بھی نہ کرا سکے۔ اب وہ گھر میں سیمنٹ سے چولہے بنا کر مقامی دکاندروں اور لوگوں کو بیچ کر چند روپے کمالیتے ہیں۔
خوشی محمد نے اپنے بیٹے اختر عباس کی امتحان میں کامیابی پر آبدیدہ آنکھوں سے اپنے جذبات کا اظاہر کرتے ہوئے کہا کہ،’’ ہم اس اعزاز کے قابل نہیں تھے جس سے خدا نے ہم کو نوازا ہے۔ مجھے خود بھی تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا ،مگر میرے والدین نہایت غریب تھے، لہٰذا مجھے بھی بجپن میں ہی اپنے والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرنا پڑی۔ بچپن میں سرد راتوں کوکھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے نوجوانی میں ہی دمے کے مرض نے مجھے آگھیرا۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ دو وقت کی روٹی مل جاتی تو ہم اللہ کا شکر ادا کرتے، لہذا علاج کرانے کے لیے رقم کہاں سے آتی، جیسے تیسے اپنے بچوں کی پرورش کی۔
اختر جب پانچویں جماعت میں پہنچا تو میں اس مرض کے ہاتھوں بالکل بے کار ہوکر گھر بیٹھ گیا۔ میں نے اختر سے کہا کہ ، ’’ بیٹے میں تمھارے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتا ، اس لیے تم اسکول چھوڑ دو‘‘۔ یہ سن کر میری بیوی نے کہا کہ ، ’’ میں محنت مزدوری کر کے اپنے بیٹے کو تعلیم دلواؤں گی ۔‘‘ ماں کی بات سن کر اختر عباس نے کہا کہ میں بھی ماں کے ساتھ مل کر محنت مزدوری کروں گا اور ساتھ تعلیم بھی جاری رکھوں گا ۔ اس دن سے ان دونوں نے نہ جانے کس کس نوعیت کی مزدوریاں کیں ، سخت محنت کی وجہ سے میری بیوی بھی انتڑیوں کے کینسر میں مبتلا ہوگئی۔
اختر عباس کی والدہ سے پوچھا کہ،’’ کن حالات سے گزر کر بیٹے کی تعلیم جاری رکھنے میں مدد دی؟‘‘اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، جب مجھے اختر کے لاہور بورڈ میں اول پوزیشن لینے کی خبر ملی تو ایسا لگا ،جیسے سارے دکھ تکلیفیں بھول گئی ہوں۔ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے یہ خوشی دکھائی۔ رندھی آواز میں اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا، طلوع سحر سے غروبِ آفتاب تک مختلف نوعیت کے کام کاج کر کے بچوں کی پرورش کر رہی ہوں۔ بیمار ہونے کے باوجود آج بھی تندور پر لوگوں کی روٹیاں لگاتی اور کھیتوں میں محنت مزدوری کرتی ہوں۔
محمد اکرم ایڈووکیٹ کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے ، انہوں نے اختر عباس کی شاندار تعلیمی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اسے تحصیل کونسل سے نہ صرف بیس ہزار روپے کی مالی مدد دلوائی بلکہ اپنے وکلاء ساتھیوں کو بھی مالی مدد کرنے کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ ،یہ بات ہمارے لئے اعزاز سے کم نہیں کہ ،ہمارے گاؤں کے ایک غریب گھرانے کے چشم و چراغ نے پورے پنجاب میں امتیازی نمبر حاصل کرکے نہ صرف ہمارا سر فخر سے بلند کردیا،بلکہ یہاں کی نوجوان نسل کا رجحان تعلیم کی طرف بھی کر دیاہے۔ ہمارےاسکول دھرمے والا میں سائنس بلاک تو ہے ،مگر سائنس کا کوئی استاد تعینات نہیں،اب ہم اس کوشش میں ہیں کہ اسکول میں میٹرک سائنس کی کلاسز کا اجراء ہو سکے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کے لئے کوئی ہائی اسکول نہیں ، ہماری خواہش ہے کہ علاقے کی اہمیت کے پیش نظر یہاں خواتین کے لئے کالج بنایا جائے۔‘‘
اختر عباس کے استاد ارشد ندیم نے، اختر عباس کی نہ صرف راہ نمائی کی بلکہ شام کو بھی مفت پڑھایا ،تاکہ اس ذہین و فطین طالب علم کی تعلیمی تشفی ہوسکے،اس میں تعلیم کی لگن دیکھی تو اس سے دیگر طلباء کے مقابلے میں زیادہ سخت ٹیسٹ لیتا ،تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی عادت پڑے۔ میں کبھی لاہور جاتا تو اس کے لئے کتابیں خرید لاتا اور اس کو نصابی کتابوں کے علاوہ بھی اچھی کتابیں پڑھنے کے لئے دیتا،خوش خطی کی ترغیب بھی دیتا رہتا۔ اختر عباس کی کامیابی پر مجھے بھی ضلع کے بہترین استاد کا اعزاز حاصل ہوا اور اس طرح علاقے کے دیگر اسکولوں کے اساتذہ میں بھی لگن سے پڑھانے کا رحجان پیدا ہوا۔
اختر عباس نے اپنے حالات اور تعلیمی سفر کے بارے میں بتایا کہ میں نے اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں میں مزدوری کی۔ جب میں پانچویں جماعت میں تھاتو میرے والد دمہ کے مرض میں مبتلا ہوگئے ، جس کی وجہ سے کوئی سخت کام نہیں کرسکتے تھے۔ میں گھر میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔ کم عمری سے میں نے اپنی والدہ کے ساتھ محنت مزدوری کی ، دونوں ماں بیٹا مختلف موسموں کی فصلوں کی بوائی اور کٹائی وغیرہ کی مزدوری کرتے تھے۔ سخت گرمیوں میں ایک ایکڑ گندم کی کٹائی اور گٹھے باندھنے کا معاوضہ ڈھائی من گندم ملتا۔ اس وقت علاقے میں گندم کی قیمت تین سو روپے من تھی، یعنی ایک ایکڑ گندم کی کٹائی سے ہمیں ساڑھے سات سو روپے حاصل ہوتے۔
ایک ایکڑ گندم کاٹنے میں ہم ماں بیٹے کو ایک ہفتہ لگ جاتا تھا۔ہر سال تین چار ایکڑ گندم کی کٹائی سے معاوضے میں اتنی گندم اکٹھی کرلیتے جس سے خاندان کے لئے سال بھر کا آٹا نکل آتا،اس کے علاوہ دھان کی بوائی کی مزدوری میں ہمیں سات سو روپے فی ایکڑ مل جاتے۔ اسکول سے گرمیوں کی چھٹیوں میں زرعی مزدوری مل جاتی اگر میں اسےناکافی سمجھتا تو دیپالپور شہر میں مکانوں کی تعمیر میں بطور مزدور کام کرنے چلا جاتا۔ جب میں نے مزدوری کا آغاز کیا ،تب میری عمر صرف تیرہ برس تھی۔
دسویں کے امتحان ختم ہوئے تو لاہور اپنے ماموں کے پاس چلا گیا ،جو ڈرائیور ہیں۔ وہاں میں مکانوں کی تعمیر میں مستریوں کے ساتھ مزدوری کرتا رہا اور رزلٹ آنے سے پانچ دن پہلے واپس گھر آیا۔ رزلٹ کارڈ موصول ہوا تو نمبر دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ میرے استاد ارشد ندیم بھی بہت خوش ہوئے۔ دو روز بعد اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ میں نے لاہور بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔ میری کامیابی میرے استاد ارشد ندیم کی رہنمائی اور تربیت کی مرہون منت ہے ،جنہوں نے نہ صرف میری تعلیمی رہنمائی کی بلکہ ہر طرح کی مالی مدد بھی کی۔
میری آنکھیں دھان کی بوائی کرتے کرتے خراب ہو گئی تھیں تو انہوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ مل کر میرا علاج کروایا۔ میرے ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی مجھ سے شفقت روا رکھی اور نہ صرف میری اسکول کی فیس معاف کردی بلکہ دسویں میں بورڈ کی داخلہ فیس بھی اپنی جیب سے ادا کی۔جب مجھے لاہور بورڈ کی طرف سے پندرہ ہزار روپے اور سونے کا تمغہ ملا تو میں نے اپنی والدہ کواسپتال میں داخل کروا دیا ،مگر یہ رقم علاج کے شروع ہی میں خرچ ہوگئی تو اپنا سونے کا تمغہ بیچ دیا۔
مجھے، تمغہ بیچنےکا کوئی افسوس نہیں ہوا، کیونکہ میری ماں کی صحت اور زندگی میرے نزدیک اس سونے کے تمغے سے کہیں زیادہ اہم ہے، جس ماں نے ہمیں اتنے دکھ اٹھا کر جوان کیا اس کے لئے تو میری جان بھی قربان ہوجائے تو حرج نہیں۔ تحصیل کونسل کی طرف سے بھی بیس ہزار روپے ملے تھے، جس سے دمے کے مریض والد اور بھائی کا علاج کروایا۔ اس کا کہنا ہے کہ ، گھریلو حالات کے پیش نظر اگر مجھے کوئی سرکاری نوکری مل جائے تو گھر کا خرچہ بھی چلتا رہے گا اور میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکوں گا۔
بعد ازاں اختر عباس نے، گورنمنٹ کمرشل انسٹیٹیوٹ دیپالپور میں تعلیم حاصل کی، انٹرمیڈیٹ اور ہیلے کالج آف کامرس پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی کام آنرزکیا۔
دوران تعلیم اختر عباس کو جملہ ضروریات کے لئے مالی اعانت فراہم کی جاتی رہی۔ اختر عباس، عارف والا میں ایک نجی کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی