• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران کا قانونی ڈرامہ، بدعنوانی الزام پر گرفتاری، ملک سیاسی بدامنی میں تبدیل، عالمی میڈیا

کراچی (رفیق مانگٹ ) عمران خان کی گرفتاری اور بعد کی صورت حال پر عالمی میڈیا کہتا ہے کہ عمران خان کے قانونی ڈرامے اور بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری نے ملک کو سیاسی بدامنی میں تبدیل کردیا،معاشی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام کا شکار پاکستان کے لئے سکیورٹی کے چیلنجز مزید سنگین ہو گئے، قیام پاکستان کے بعد اس طرح فوج کو براہ راست بہت کم چیلنج کیا گیا، غیر معمولی طور پر، فوجی مقامات پر احتجاج کی ہدایت کی گئی ،امریکاانسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرتا ہے،واشنگٹن کی طرف سے کوئی بھی تبصرہ غیر دانشمندی ہوگی،ممکن ہے عمران اپوزیشن کی مہم کا ہدف ہو، لیکن وہ بدعنوانی کے اسکینڈلز کا مرکز رہا ہے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کےلئے انتہائی طریقوں کا سہارا لیا،امریکا،برطانیہ،یورپی یونین،اقوام متحدہ سمیت کسی نے بھی عمران خان کی گرفتاری کی مذمت نہیں کی،برطانوی وزیر اعظم نے خان کی گرفتاری کو ’’پاکستان کا اندرونی معاملہ‘‘قرار دیا جب کہ امریکا نے پاکستان میں جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کے احترام پر زور دیا ۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانیہ نے عمران خان کی گرفتاری کی مذمت نہیں کی۔برطانیہ ان ممالک پر سخت تنقید کرتا ہے جہاں جمہوری آزادیوں پر حملہ کیا جاتا ہے۔برطانوی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے حکومت پاکستان کے فیصلے پر تنقید کا ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم رشی سنک نے ممبران پارلیمنٹ کو بتایا کہ خان کی گرفتاری ’’پاکستان کا اندرونی معاملہ‘‘ ہے۔ حال ہی میں برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے شام کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنے کے فیصلے کی مذمت کی۔اس کے برعکس، کلیورلی نے پاکستان کے سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کرنے کا معمول کا قدم بھی نہیں اٹھایا۔حکومت کا کہنا ہے کہ خان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ قومی احتساب بیورو کا ہے۔ جب یہ فیصلہ کیا گیا تو شہباز شریف لندن میں تھے۔یہ سوال اٹھتا ہے کہ برطانیہ کو خان کوگرفتار کرنے کے منصوبے کا کتنا علم تھا۔ کیا برطانوی حکومت سے مشورہ کیا گیا؟ کیا برطانیہ نے بھی خاموشی سے رضامندی دی؟پاکستان میں ہونے والے واقعات دو وجوہات کی بنا پر برطانیہ کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے، پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت اور دوسرا 20 لاکھ سے زائد پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔اگر پاکستان انتشار کا شکار ہوتا ہے تو برطانیہ کے لیے اس کے نتائج بہت وسیع ہیں۔ برطانیہ کا شریف حکومت کے اقدامات کی مذمت کرنے سے انکار بھی نظر آتا ہے۔امریکی تھنک ٹینک ’’جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن ‘‘ لکھتا ہے کہ عمران کی گرفتاری کے واقعے کے بعد معاشی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام کا شکار پاکستان کے لیے سیکیورٹی کے چیلنجز مزید سنگین ہو گئے ہیں عدالتوں کی طرف سے ضمانت کے اقدام سے پاکستان کی کشیدہ صورتحال میں کمی آئے گی،معلوم نہیں۔ گرفتاری نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا اور پاکستان میں معمول کی زندگی اور کاروباری سرگرمیاں ٹھپ کر دی ۔ خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کی حکمت عملی اگر ناکام ہو گئی تو پر تشدد واقعات ہو سکتے ہیں۔ان کی گرفتاری نے ان کے حامیوں میں خان کی مقبولیت میں اضافہ ہی کیا۔ خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن نے صرف خان کے ارد گرد مزید عوامی ہمدردی پیدا کی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارہ وائس آف امریکا کہتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کئی دنوں کے قانونی ڈرامے اور بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری پر ملک گیر ہنگامے کے بعد ضمانت پر رہا ہونے کے بعدلاہور میں اپنی رہائش گاہ پہنچے۔خان نے فوج کے خلاف بغاوت کی مہم شروع کی جس پر آزاد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے نہیں اقتدار میں عروج و زوال ملا۔خان نے مخلوط حکومت پر اعلیٰ جرنیلوں کے ساتھ مل کر ان کی جگہ لینے کا الزام عائد کیا اور دھماکہ خیز دعوے کیے ، قیام پاکستان کے بعد اس طرح فوج کو براہ راست بہت کم چیلنج کیا گیا۔ برطانوی جریدہ اکانومسٹ لکھتا ہے کہ عمران کی گرفتاری نے سیاسی اور آئینی بحران کو بڑھا دیا ہے خان نے گزشتہ سال اپنی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کو کبھی بھی جائز تسلیم نہیں کیا۔ بحران اس وقت آئینی شکل اختیار کر گیا جب سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا،شریف حکومت انتخابات سے قبل معیشت کو بہتر بنانے کے لیے وقت چاہتی ہے۔ چین کی دو طرفہ حمایت کے باوجود پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے خطرے میں ہے۔ غیر معمولی طور پر، پاکستان میں فوج کے احترام اور خوف کو دیکھتے ہوئے، فوجی مقامات پر احتجاج کی ہدایت کی گئی ۔ برطانوی اخبار’’گارڈین‘‘ لکھتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کا پاکستان میں اثر یہ ہوا کہ ملک کوپرتشدد مظاہروں اور مزید سیاسی بدامنی کی طرف دھکیل دیا، پہلے سے کمزور سیاسی استحکام کو خطرہ ہے۔خان نے حکومت کے خلاف معاشی بدانتظامی اورفوج میں اپنے سابق اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مہم شروع کی،پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان اپنے قرضوں میں نادہندہ ہونے کے دہانے پر ہے اور آئی ایم ایف سےبیل آؤٹ کا انتظار کر رہا ہے،عمران خان کے دور حکومت میں معیشت آہستہ آہستہ ڈوب رہی تھی۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک The Quincy Institute for Responsible Statecraft کا کہنا ہے عمران خان کی گرفتاری نے پورے پاکستان میں پولیس اور فوج کے خلاف غیر معمولی تشدد کو جنم دیا۔اگرچہ پاکستان میں سیاست دانوں کی گرفتاریاں اور بڑے سیاسی احتجاج عام ہیں لیکن ان کے لئے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔خان کی گرفتاری کا تعلق القادر ٹرسٹ کیس سے ہے،تاہم کچھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حراست سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم کا نتیجہ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فوج نے ان تنصیبات کے حوالے سے پرتشدد ردعمل نہ دینے کا شعوری فیصلہ کیا۔ممکنہ طور پر تین عوامل ہیں ۔سب سے پہلے، فوج یہ قیاس کر رہی ہے کہ احتجاج قدرتی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ بھاپ کھو دے گا۔ دوم، قیادت کا مقصد پرتشدد تصادم سے بچنا ہو سکتا ہے سوئم مظاہروں کو سیاست میں خان کی شرکت کو محدود کرنے اور پی ٹی آئی پر پابندیاں لگانے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قوم معاشی بحران کے دہانے پر جا رہی ہے۔ اس صورتحال کا اثر خود عمران خان تک بھی پھیلتا ہے، ممکنہ طور پر پاکستان کے معاشی بحران پر قابو پانے اور آئی ایم ایف بیل آؤٹ سمیت علاقائی امداد کو محفوظ بنانے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔اس کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر بھی ممکنہ اثرات ہیں۔ امریکا تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھتا ہے اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک شراکت دار کے طور پر پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرتا ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے کوئی بھی تبصرہ غیر دانشمندی ہوگی۔امریکی میڈیا کے مطابق خان کی گرفتاری نے پاکستان کے استحکام کے لیے اس وقت کئی بحران پیدا کئے ہیں۔ ملک اس وقت ریکارڈ بلند افراط زر اور ڈیفالٹ کے کنارے پر ہے۔ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں حالیہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی بحران اب تک ان مسائل پر چھایا ہوا ہے۔یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی ڈائریکٹر تمنا سالک الدین نے کہا تمام توجہ سیاسی بحران اور سیاسی عدم استحکام پر مرکوز ہے، آپ معاشی اور دہشت گردی دونوں بحرانوں سے نمٹنے کے معاملے میں مزید مفلوج ہو چکے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے کسی کے پاس کوئی جگہ نہیں۔ واقعات اس کی مظلومیت کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں، اور پاکستان میں مظلومیت کی داستانیں بہت طاقتور سیاسی ہتھیار ثابت ہو سکتی ہیں۔ممکن ہے کہ وہ اپوزیشن کی مہم کا ہدف ہو، لیکن وہ بدعنوانی کے اسکینڈلز کے مرکز رہا ہے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی طریقوں کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے عدم اعتماد کے ووٹ سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی کوشش کی، اور ان کے ارکان بڑے کرپشن سکیم میں ملوث تھے جس میں آف شور کمپنیاں اور ٹرسٹ شامل تھے جنہیں وہ چھپاتے تھے۔ عمران کی گرفتاری کو کچھ مبصرین 1971 کے بعد سے ملک کا سب سے بڑا بحران قرار دے رہے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت ممکنہ طور پر خطرے میں ہے۔امریکا نے پاکستان میں جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کے احترام پر زور دیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری نے کہا ہم پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری سے آگاہ ہیں۔

اہم خبریں سے مزید