اسلام آباد (تجزیاتی رپورٹ حنیف خالد) عمران خان کی گرفتاری کے بعد لاہور کینٹ میں مظاہرین کے ہاتھوں جلایا جانے والا کور کمانڈر ہاؤس صرف اس لئے تاریخی اہمیت کا حامل نہیں کہ یہ ایک تاریخی قدیم عمارت تھی جسے قومی ورثے کے تحت تحفظ حاصل تھا بلکہ اس کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ لاہور میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا خرید کردہ گھر تھا۔
جناح ہاؤس لاہور کینت کے جس علاقے میں واقع یہ جائیداد لالہ شیو دیال سیٹھ کے نام تھی جو لاہور کی اہم سماجی شخصیت تھے اور تعمیرات سے وابستہ تھے انہوں نے 1935 میں اپنی وفات سے کچھ سال پہلے یہ جائیداد خواجہ نذیر احمد کو فروخت کر دی تھی جنہوں نے یہ جائیداد اپنی بیگم کے نام کر دی ان کی بیگم نے یہ بنگلہ لالہ موہن لال کو فروخت کردیا.
جولائی 1943 میں قائداعظم محمد علی جناح نے یہ بنگلہ موہن لال سے ایک لاکھ لاکھ 62 ہزار 5 سو روپے میں خریدا تھا۔
قائداعظم نے جب یہ بنگلہ خریدا تو اس سے پہلے یہ بنگلہ برطانوی فوج نے کرایے پر حاصل کر رکھا تھا جس کا ماہانہ کرایہ علامتی طور پر 5 روپے تھا ان کے ڈیفنس آف انڈیا رول کے تحت برطانوی فوج کوئی بھی جائیداد حاصل کرسکتی تھی۔
جب قائداعظم نے یہ بنگلہ خرید لیا تو فوج کی کرایہ داری کی معیاد ختم ہونے والی تھی تاہم فوج نے پھر اس رول کے تحت اس معیاد میں توسیع کردی۔
قائداعظم اور برطانوی فوجی حکام کے درمیان ڈیڑھ سال خط و کتابت ہوتی رہی وائسرے ہند مونٹ بیٹن کی جانب سے 3 جون کا منصوبہ آگیا جب برطانوی فوجی حکام کو پتہ چلا کہ لاہور کینٹ بنگلے کے مالک پاکستان کے پہلے گورنر جنرل نامزد ہوچکے ہیں۔
یکم اگست 1947 کو کرنل اے آر بارس نے قائداعظم کو ایک خط لکھ کر 31 اگست 1947 تک بنگلہ خالی کرنے کے فیصلے سے آگاہ کردیا لیکن قائداعظم اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث بنگلے کا قبضہ واپس لینے نہیں آسکے تو 31 جنوری 1948 تک کرایہ نامے میں توسیع کردی گئی۔