یُوں تو منشیات کے زہر نے دُنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، لیکن ترقی پذیر قوموں میں نوجوان نسل اس کا بُری طرح شکار ہے۔ ہیروئن، چرس، افیون کے ساتھ ساتھ اب نشہ اور گٹکا مین پوری ماوا اور زید 21 کی لت نے نوجوان نسل کو کینسر زدہ کرکے موت کی وادی میں دھکیلنے کی راہ دکھا دی ہے، جب کہ یہ حقیقت ہے کہ اب منشیات کے اسمگلروں نے ہیروئن چرس اور افیون کی بجائے گٹکا مین پوری ماوا اور زیڈ 21 یہ اسمگلنگ شروع کردی ہے، جب کہ ضلع شہید بینظیر آباد سمیت سندھ بھر میں اس کی تیاری کے لیے کارخانے بھی وجود میں آگئے ہیں۔
پولیس اسپیشل برانچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع شہید بینظیر آباد میں گٹکا تیار کرنے کے 84 کارخانے لاڑکانہ میں 34 ،سکھر میں 35 ،میرپور خاص میں 102 ،حیدرآباد میں 530 کار خانے، جب کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 151 کارخانے دن رات اس زہر کی تیاری میں مصروف ہیں۔ پولیس اسپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں زیڈ اکیس جو کہ بھارت میں تیار کی جاتی تھی اور افغانستان کے راستے بلوچستان پہنچائی جاتی تھی، جب کہ یہ زہر جس کی سب سے بڑی منڈی سندھ ، خاص طور پر شہری علاقے جہاں پان کا استعمال کلچر کا حصہ تھا، اس کی جگہ اس نشہ اورZ 21 نے لے لی تھی اور یہ نشہ نوجوان نسل کی رگوں میں رچ بس گیا ۔ z21 مقامی طور پر تیار کی جارہی ہے، اس قبیبح کاروبار کی سرپرستی سیاسی عناصر کے علاوہ خود محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افسران بھی مبینہ طور پر کر رہے ہیں ۔ پولیس اسپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق دولت کی چمک نے اس کاروبار میں حصہ لینے والوں کی آنکھ پر مفادات کی پٹی باندھ دی ہے، جب کہ محکمہ پولیس کے ایک اور ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق زیڈ 21 کے ایک ٹرک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی رشوت ایک کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اس زہر کے خاتمے کے لیے اسپیشل ٹاسک فورس قائم کی، جس کی کارروائی سندھ میں جاری ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹاسک فورس خودمختیار قرار دی گئی ہے اور کسی بھی تھانے کی حدود میں کارروائی کی مجازہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ٹاسک فورس کی کارروائیوں کے نتیجے میں سندھ میں اس زہر آلود دے نشے کی فروخت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم چوری چھپے یہ کاروبار اب بھی جاری ہے، اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹاسک فورس کی سفارش پر سندھ میں اب تک ایک سو چوبیس سے زائد ایس ایچ او اور ڈی ایس پی اور بڑی تعداد میں اے ایس آئی اور کانسٹیبل معطل کیے گئے ہیں۔ ضلع شہید بینظیر آباد میں پولیس رپورٹ کے مطابق اب تک دو سو سے زائد افراد منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار، جب کہ 28 ایس ایچ او اور آے ایس آئی کو معطل ،آٹھ پولیس کانسٹیبل کو برطرف کیا گیا ہے۔
ادھر آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے منشیات فروشی کی لعنت کے خاتمے کےلیے کی جانے والی کوششوں کو عوامی سطح پر بھی زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور سول سوسائٹی کی جانب سے آئی جی پولیس کے منشیات فری سندھ کے قیام کو سراہا گیا ہے، جب کہ دوسری جانب آئی جی پولیس کی جانب سے اسپیشل ٹاسک فورس کے سربراہ کو جو ہدف دیا تھا، اس کی رپورٹ کے مطابق کافی حد تک سندھ میں نشہ آور مین پوری ماوا اور زیڈ 21 کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ اس سلسلے میں اسپیشل ٹاسک فورس کی جانب سے ضلع شہید بینظیر آباد کے شہر نواب شاہ میں گزشتہ ہفتے بی سیکشن تھانہ ائرپورٹ تھانہ کی حدود میں فیکٹریوں پر چھاپہ مارا گیا ، جہاں پر بڑی مقدار میں گٹکا بنانے کا را مٹیریل برآمد کرکے کئی ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
تاہم پولیس کے مطابق اس نفع بخش کاروبار میں اتنی چمک ہے کہ سزا کے باوجود بھی اسمگلراس کاروبار کو بند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان سے پولیس کی جنگ جاری ہے۔ دوسری جانب آئی جی پولیس سندھ کی جانب سے سندھ کے کئی اضلاع کے ایس ایس پی کو تبادلہ کرکے دوسرے اضلاع میں تعینات کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں نوٹیفکیشن کے مطابق ساجد سدوزئی کو ایس ایس پی حیدرآباد ،امجد شیخ کو ایس ایس پی شکارپور ، ڈاکٹر فرخ رضا کو ایس ایس پی جام شورو ،بشیر بروھی کو ایس ایس پی آپریشن ون سی ٹی ڈی ،ایس ایس پی عرفان سموں کو کشمور ،عمران قریشی کو اے آئی جی ایسٹ مینجمنٹ سی پی او ،عابد بلوچ کو ایس ایس پی سانگھڑ ،زاہدہ پروین کو ایس پی تھرپارکر اور مہزور علی کو ایس ایس پی بے نظیر آباد تعینات کیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اعلی سطح پر ہونے والی یہ اکھاڑ پچھاڑ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ آئی جی پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے صوبہ کو منشیات سے پاک کرنے کی جنگ آخری مرحلے میں پہنچ گئی ہے اور اب نئے جوش اور جذبے کے ساتھ آنے والے پولیس افسران بھرپور طریقے سے کارروائی کا آغاز کریں گے اور منشیات فروشی کی لعنت کو صوبے سے ختم کرکے ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کریں گے، اس سلسلے میں معروف قانون دان نثار احمد بھمبرو کا کہنا تھا کہ منشیات فروشی کے خلاف جو قوانین موجود ہیں، ان میں بھی انقلابی تبدیلیوں کی گنجائش ہے اور اس سلسلے میں لاء ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ بھرپور طریقے سے محنت کرکے منشیات فروشی کی لعنت کے خاتمے کے لیے ایسے قوانین بنائے جن کی موجودگی میں منشیات فروش عبرتناک سزا پا سکیں۔