کراچی (رفیق مانگٹ) بھارت کے ریزرو بینک نے دو ہزار روپے کے کرنسی نوٹ واپس لینے کا اعلان کردیا، مرکزی بینک نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس دو ہزار روپے کے نوٹ ہیں وہ انہیں 30 ستمبر سے پہلے بینکوں میں جمع کرا سکتے ہیں یا دیگر نوٹوں سے تبدیل کرا سکتے ہیں۔یہ نوٹ نومبر 2016 میں دو ہزار کے نوٹ متعارف کرائے گئے تھے۔ اسی سال مودی نے ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم کی تھی۔ بعد ازاں دو ہزار روپے کا نوٹ 2016 میں ہندوستان کے کل کرنسی نوٹوں کے 86 فیصد کو ختم کرنے کے بعد لایا گیا تھا،نوٹوں کے ساتھ 500 روپے کے نئے نوٹوں کی چھپائی شروع کی گئی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی کے دوران 2000 روپے کا نوٹ اس لئے بنایا گیا تھا تاکہ 100 روپے کے نوٹ کے بجائے اے ٹی ایم ان سے بھر سکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ اے ٹی ایم سے زیادہ رقم نکال سکیں۔ سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کا کہنا ہے کہ 2000 روپے کا نوٹ ہمیشہ ایک گندا نوٹ تھا، 2000 روپے کا نوٹ متعارف کرانا غلط بات تھی ۔ اپوزیشن نے شدید رد عمل دیتے ہوئے کہا یہ قدم ماضی میں کی گئی نوٹ بندی کی ناکامی کی توثیق ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں اس نوٹ کے اجرا کو مودی حکومت کی کالے دھن کو ختم کرنے کی بڑی حکمت عملی یا ماسٹرا سٹروک کے طور پر لیا گیا تھا۔ اپوزیشن اب کہہ رہی ہے کہ نہ تو کالا دھن اور نہ اس سے کرپشن ختم ہو ئی۔ یاد رہے نومبر 2016 کی ایک رات اچانک وزیر اعظم نریندر مودی نے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد حکومت نے دو ہزار روپے کا نیا بڑا گلابی کرنسی نوٹ متعارف کروایا تھا۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق مودی کے2016کے اقدام نے معیشت کو جھٹکا دیا تھا لیکن اس بار ایسا کم توقع کیا جارہا ہے ۔ مرکزی بینک زیادہ مالیت کے نوٹوں کو کم کرنا چاہتا تھا اور گزشتہ چار سالوں میں 2000 روپے کے نوٹوں کی چھپائی بند کر دی تھی۔ تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ ریاستی اور عام انتخابات سے پہلے اس طرح کا اقدام کرنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں، ڈیجیٹل لین دین اور ای کامرس کا دائرہ کار نمایاں طور پر وسیع ہوا ہے۔ بینک اس سے کیسے متاثر ہوں گے اس سے بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہوگا۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب ڈپازٹ کی نمو بینک کریڈٹ کی ترقی سے پیچھے ہے۔ اس سے ڈپازٹ کی شرح میں اضافے پر دباؤ کم ہو جائے گا۔بینکنگ سسٹم کی لیکویڈیٹی میں بھی بہتری آئے گی۔ چونکہ تمام 2000 روپے کے نوٹ بینکنگ سسٹم میں واپس آ جائیں گے، اس لیے گردش میں نقدی میں کمی دیکھیں گے اور اس کے نتیجے میں بینکنگ سسٹم کی لیکویڈیٹی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ مارکیٹ میں قلیل مدتی سود کی شرحیں گر جائیں گی ۔ 2016 میں نوٹوں کی منسوخی نے بینکنگ سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا تھا تاہم دو ہزارکے نوٹوں کی واپسی نوٹ بندی کا مظہر نہیں۔آر بی آئی نے ماضی میں2013-2014 میں، 2005 سے پہلے جاری کردہ تمام بینک نوٹوں کو واپس لے لیا تھا اور شہریوں کو اسی طرح بینکوں سے رجوع کرکے ان نوٹوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔ ریزرو بینک نے اس وقت یہ بھی واضح کیا تھا کہ 2005 سے پہلے جاری کردہ نوٹ قانونی طور پر جاری رہیں گے۔آر بی آئی نے ایک پریس بیان میں کہا کہ 2000 روپے کے بینک نوٹ متعارف کرانے کا مقصد اس وقت پورا ہو گیا جب دیگر مالیت کے بینک نوٹ مناسب مقدار میں دستیاب ہو گئے۔ اس لیے 2018-19 میں 2000 روپے کے بینک نوٹوں کی چھپائی روک دی گئی۔ 2016 میں مودی نے نوٹ بندی کی یہ دلیل دی کہ یہ بڑےکرنسی نوٹ کالا دھن اور دہشت گردی کے لیے پیسے کا بڑا ذخیرہ ہے۔ 2000 روپے کا کرنسی نوٹ متعارف کروانا اس منطق کی نفی کرتا ہے۔ سچائی یہ ہے زیادہ تر کالا دھن دیگر اثاثوں جیسے سونے یا جائیداد میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، کرنسی میں نہیں۔ یہ نوٹ مختلف سائز کے تھے اور اس لیے موجودہ اے ٹی ایم مشینوں میں فٹ نہیں ہو سکتے تھے۔ اس نے تمام اے ٹی ایمز کو دوبارہ کیلیبریٹ کرنے پر مجبور کیا اور ریمنی ٹائزیشن کی مشق میں مزید تاخیر کا خاتمہ ہوا جبکہ پورا ملک طویل قطاروں میں کھڑا تھا۔ 2000 روپے کے نوٹوں میں کوئی انتہائی متوقع سکیورٹی اپ ڈیٹ نہیں تھا۔ان کی نقل تیار کرنا آسان تھا۔ 2016 کے اوائل میں، 2ہزار روپے کے جعلی نوٹوں کی خبریں آئی تھیں۔ اس روپے کے نوٹ کوکوئی بھی اسے توڑ کر چیزیں خریدنے میں استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ زر مبادلہ کے ذریعہ کے طور پر اس کا بہت محدود استعمال تھا۔